شاہ خراسان

وبلاگ اطلاع رسانی اخبار و احوال جہاں اسلام ، تبلیغ معارف شیعی و ارشادات مراجع عظام ۔

ڈاکٹر ولایتی: ایران اور عربوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں سعودی عرب غلط فہمی کا شکار

مئ 8, 2016 - 4:10 PM

  • News Code : 752901
  • Source : mehrnews
Brief

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بین الاقوامی امور کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے ایران کے خلاف سعودی عرب کی معاندانہ پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اس غلطی فہمی میں مبتلا ہے کہ ایران کی نسبت اس کے عرب ممالک کے ساتھ گہرے روابط ہیں حالانکہ خلیج فارس تعاون کونسل کے ساتھ ہماری کوئی مشکل نہیں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا ۔ کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بین الاقوامی امور کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے المیادین کے ساتھ گفتگو میں ایران کے خلاف سعودی عرب کی معاندانہ پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اس غلطی فہمی میں مبتلا ہے کہ ایران کی نسبت اس کے عرب ممالک کے ساتھ گہرے روابط ہیں حالانکہ ہماری خلیج فارس تعاون کونسل کے ساتھ کوئی مشکل نہیں ہے۔ ولایتی نے کہا کہ ایران کی کسی بھی عرب ملک کے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہے شام اور عراق میں فوجی مشیروں کی حد تک ایران کی موجودگی وہاں کی حکومتوں کی درخواست پرہے لہذا شام اور عراق میں ایران کی موجودگی بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہے ۔ ولایتی نے حلب میں جاری لڑائی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حلب شام کا دوسرا بڑا شہر ہے اور اس شہر کی آزادی اور اس کی تعمیر شامی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

ادامه مطلب...
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

ایک اھم شخص پاک میں شھید

تصویری رپورٹ؛ کراچی میں اہم شیعہ سماجی رہنما دھشتگردوں کے ہاتھوں شہید

 

  • News Code : 752876
  • Source : ابنا خصوصی
 شہر قائد میں دہشت گردوں نے معروف سماجی کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے خرم ذکی کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق نارتھ کراچی میں سلیم سینٹر کے قریب خرم ذکی پر ہوٹل میں تین مسلح دہشت گردوں نے فائرنگ کی۔ فائرنگ کی زد میں آکر خرم ذکی سمیت تین افراد شدید زخمی ہوگئے، جبکہ حملہ آور باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

کرگل میں جشن بعثت رسول(ص)، ایران سے خصوصی مہمانوں کی شرکت

کرگل میں جشن بعثت رسول(ص)، ایران سے خصوصی مہمانوں کی شرکت+ تصاویر

 

  • News Code : 752600
  • Source : ابنا خصوصی
خصوصی مہمان نے کرگلی قوم کو ولایت مداری ہونے پر مبارک باد پیش کی اور ولی الامر المسلمین کی سرزمین سے پیغام سلام پہونچایا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔  ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے شہر کرگل میں سالہاے گذشتہ کی طرح اس سال بھی بسیج روحانیون امام خمینی میموریل ٹرسٹ کرگل کے اہتمام سے جامع مسجد کرگل میں جناب حجة الاسلام آقائی سید حسین میر واعظ ٹاون کی صدارت اور مولانا سجاد کلیم کی نظامت میں برگذار ہوئی اس محفل میں اسلامی جمہوری ایران سے آئے ہوے دو اسلامی اسکالر و سماجی کارکن نے بھی شرکت کی محفل جشن صبح دس بجے  جناب سجاد طالب علم دارالقرآن منجی گوند کی تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوئی  اس کے بعد استاد مطہری اسکول فوکر جناب شیخ مسلم صادقی نے نعت رسول مقبول پڑھی اور اس کے بعد جناب ایم ایل اے کرگل و آئی کے ایم ٹی کے بنیادی ممبر جناب الحاج  اصغر علی کربلائی نے تقریرکی۔ کربلائی صاحب پانچ مہینہ کے بعد مومنین سے ملے تھے اور مومنین اُن کی دلربا و سبق آموز تقریریں سُننے کے خواہاں تھے ۔ کربلائی صاحب نے بعثت ومعراج کے فلسفہ پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوے مومنین کو اہداف بعثت کا تذکرہ کیا  اُنہوں نے کہا حضور اکرم ۖ اپنے قوم کو بیداری  کا درس دینے کیلئے مبعوث ہوے تھے ۔ حضوراکرم ۖ  کا اولین ترجیحی کام دین وقوم سے ہمدردی ہے ۔جس کی بنا پر سارے عالم کے مستضعفین کے دل جیتنے  میں کامیاب ہوے ۔کربلائی صاحب نے ہمدردی کے نمونہ میں جان ومال فدا کرنے والے افردا کی مثال پیش کی اور مومنین سے  مالی امداد اور خمس و زکواة کی آدیگی کا مشورہ دیا ۔ جناب ا یم ایل اے نے امام خمینی میموریل ٹرسٹ کی بہترین کارکردہ گی کا بیان کرتے ہوے کہا کہ آج کرگلی قوم کا نام پورے ہندوستا ن بلکہ ہندوستان سے باہر بھی ایک بیدار اور غیور قوم کے نام سے جانا جاتا ہے تو یہ صرف آئی کے ایم ٹی کے کارکنوں کی کارکردہ گی کا اثر ہے ۔ اس کے بعد مہمان عزیز جناب حجة الاسلام آقائی برائتی نے غیور قوم  سے خطاب کیا ۔ مہمان نے کرگلی قوم کو ولایت مداری ہونے پر مبارک باد پیش کیا اور ولی الامر المسلمین کی سرزمین سے پیغام سلام پہونچایا ۔آقائی برائتی نے کہا کہ میں نے کرگل کا نام بارہا سنا  تو تھا لیکن دیکھا کھبی نہیں تھا اور دل ہی دل میں کرگلی قوم سے ملنے کا عشق بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ اور آج خدا لاکھ لاکھ شکر کرتا ہوں کہ میرا  اپنا آرزو پورا ہوا ۔ مہمان عزیز نے قوم کرگل کو امام خمینی کے سچے عاشق ہونے پرمبارک باد پیش کیا ۔اُنہوں نے کہا کہ امام اُمت نے حضور اکرم ۖ کی طرز زندہ گی پر زندہ گی گذاری اور جناب رسالت ماب کی طرح یتیمی میں قوم کا علمدار بننے کا شرف ملا ۔امام اُمت کا عقیدہ یہ تھا کہ جو بھی اللہ کیلئے کام کرے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے ہیں۔ مہمان عزیز نے امام حسین کی اسلام کی تئیں دی گئی قربانیوں کوہمارے لیئے نمونہ عمل بتایا گیا اور زور دار آوازوں میں لبیک یا حسین لبیک یا زھراء لبیک یا زینب لبیک یا خمینی لبیک یا خامنائی کا نعرہ لگایا جس کا جواب اہل محفل نے یک زبان ہوکر دیا ۔ اس کے بعد صدر محفل نے تمام حاضرین محفل اور مہمانوں کا شکریہ آداء کیا صدر محفل نے آئی کے ایم ٹی کے مختلف شعبہ جات ۔ بسیج امام کے جوانوں۔ بسیج زینبیہ ، بسیج روحانیون ، باقریہ ، مطہری ، جامعہ امام خمینی، جامعہ فاطمہ زھراء ، دارالقرآن زینبیہ اور کیچن کے مسولین سمیت تمام لوگوں کی دنیوی و اخروی ترقی کے بارے میں دعا کی محفل کے بعد مہمانوں نے بسیج روحانیون سے خصوصی ملاقات کی جس میں مہمان عزیز نے علما کو سب سے زیادہ معاشرہ میں رہ رہے جوانوں کے ساتھ دلچسپی لینے کی ہدایت دی اور کہا جوان نسل کی اگر تر بیت ہوجاے تو وہ ایک معاشرہ کو تبدیل کر دیتا ہے امام اُمت نے جوانوں کی مدد سے ہی ایران کو اسلامی بنادیا۔ عراق کے توسط  اور عرب کی مددسے مغربی ممالک نے ایران پر دباو ڈالنے کی جب کوشش کی تو جوانوں نے ہی اسلام اور ایران کو بچایا تھا آج ہم روحانیون کو بھی نسل جوان کے ساتھ بہت ہی قریب آنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد مہمانوں نے دارالقرآن زینبیہ کے بچوں سے ملاقات کی اور پھر باقریہ کے ممبران اور مطہری کے ممبران سے ملاقات کی ان ملاقاتوں کے بعد ایران سے آئے ہوئے مہمانان بہت ہی حیران ہوئے اور داد دینے لگے۔ کہا کہ ہم آئی کے ایم ٹی کے ان کار کردیوں کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے ہیں اور واقعا یہ ایران ثانی ہے کہ جس میں کام بھی ہوبہو ایران کی طرح چل رہا ہے اس کے بعد مہمانوں کی ملاقات جناب سرپرست اعلی ٰشیخ محمد حسین ذاکری اور جناب الحاج اصغر علی کربلائی سے ہوئی ۔ اور آخر میں بسیج امام کے جوانوں سے ملاقات ہوئی ۔ جس میں بسیج کو خلوص نیت کے ساتھ مزید فعالیت انجام دینے کی ہدایت دی اور آئی کے ایم ٹی کی فعالیات کو خصوصی طور ایران کے لوگوں، بزرگوں، سماجی کارکنوں اور بالاخص ولی الامر المسلمین کے دفتر میں بیان کرینگے ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

عمران خان کا پاکستان دھشت سے خالی ہونا چاہۓ

علامہ مقصود ڈومکی: عمران خان کا نیا پاکستان دہشتگردی سے پاک ہونا چاہیئے

 

  • News Code : 752791
  • Source : islamtimes
Brief

ایم ڈبلیو ایم بلوچستان کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت شیعہ وکلا، ٹیچرز و زعماء کے قتل عام کا سلسلہ روکے۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا ۔ کی رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی نے ڈی آئی خان میں معصوم انسانوں کی شہادت کو المناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے تمام تر دعووں کے باوجود آج بھی ملک کے گلی کوچوں میں قاتل دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا نیا پاکستان دہشت گردی سے پاک ہونا چاہیئے، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت شیعہ وکلاء، ٹیچرز و زعماء کے قتل عام کا سلسلہ روکے۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے، جبکہ ملکی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ملک و قوم کو دھشت گردی اور کرپشن سے نجات دلائیں۔ کرپشن اور دہشت گردی نے دیمک کی طرح ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کی جانب سے گیارہ دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے وارثان شہداء اور کوئٹہ کے مظلوم ہزارہ عوام یہ سوال پوچھتے ہیں کہ سینکڑوں معصوم انسانوں کے قاتل ہمارے مجرموں کو کب پھانسی ہوگی؟۔ کیونکہ وارثان شہداء آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین معاشرے کے مظلوم اور ستمدیدہ عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے، ملکی اور عالمی سطح پر انسان دشمن اور عوام دشمن سامراجی قوتوں کے خلاف ہم میدان عمل میں ہیں۔ عوام کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمہ اور متبادل صالح قیادت کے سلسلے میں ہمارا ساتھ دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

کشمیر میں 3 عسکری پسند ھلاک

مقبوضہ کشمیر میں 3 عسکری پسند جاں بحق، نماز جنازہ میں ہزاروں شریک

 

  • News Code : 752788
  • Source : islamtimes
Brief

تینوں عسکری پسندوں کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جبکہ یہاں ٹہاب گاﺅں میں فورسز اور نوجوانوں کے مابین کل دن بھر زبردست جھرپیں ہوئیں جن میں 44 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا ۔ کی رپورٹ کے مطابق پنجگام پلوامہ میں گزشتہ شب قابض فورسز اور عسکری پسندوں کے مابین ایک مختصر تصادم میں تین جنگجو جاں بحق ہوئے جن میں حزب المجاہدین کے دو اور لشکر کا ایک جنگجو شامل ہے۔ جبکہ ایک پولیس اہلکار بھی زخمی ہوا۔ تینوں عسکری پسندوں کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جبکہ یہاں ٹہاب گاﺅں میں فورسز اور نوجوانوں کے مابین کل دن بھر زبردست جھرپیں ہوئیں جن میں 44 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پورے پلوامہ ضلع میں مجاہدین کی شہادت پر مکمل ہڑتال رہی جبکہ ریل سروس بھی بند رہی۔ جس دوران تمام دکانیں بند رہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک غائب رہا۔ صبح دس سے چار بجے تک مواصلاتی نظام بھی بند کیا گیا۔

ادامه مطلب...
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

آیۃ اللہ حائری کی عراقی سیاسی پارٹیوں پر تنقید

عراق کے سیاسی بحران کے بارے میں آیت اللہ حائری کا انتہائی سخت بیان

 

  • News Code : 752687
  • Source : ابنا خصوصی
Brief

انہوں نے اپنے اس بیان میں سیاسی پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے:’’ کیا جو تباہی اور بدحالی تم اس ملک میں لائے ہو وہ کافی نہیں ہے؟ جو تم اس ملک کے مظلوم عوام پر ستم ڈھا رہے ہو وہ کافی نہیں ہے؟‘‘

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ عراق میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان شدید اختلافات اور رسہ کشی پیدا ہونے کے بعد آیت اللہ العظمیٰ سید کاظم حائری نے ایک سخت بیان جاری کر کے تمام سیاسی رہنماوں کو خبردار کیا ہے اور انہیں عراق کی مشکلات کا اصلی عامل قرار دیا ہے۔
انہوں نے اپنے اس بیان میں سیاسی پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے:’’ کیا جو تباہی اور بدحالی تم اس ملک میں لائے ہو وہ کافی نہیں ہے؟ جو تم اس ملک کے مظلوم عوام پر ستم ڈھا رہے ہو وہ کافی نہیں ہے؟‘‘
اس مرجع تقلید نے مزید سخت لہجے میں کہا ہے:’’عراق کے عوام جو تمہارے جال و مال و عزت و ناموس کے لیے جنگ کر رہے ہیں اور تمہارے عہدوں اور منصبوں کی حفاظت کر رہے ہیں، اور تم لوگوں کی وجہ سے زحمتیں اور مصیبتیں اٹھا رہے ہیں، خدا را خدا را ان لوگوں کے جان و مال و عزت کی حفاظت کرو، ان پر ظلم سب سے بڑا گناہ اور معصیت ہے‘‘۔
انہوں نے عراق کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے: میں آج بھی وہی بات تکرار کر رہا ہوں جو اس سے پہلے کہتا رہا ہوں؛ جان لو کہ تجربہ کار اور خیرخواہ افراد کی نصیحت پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ حسرت اور پشیمانی ہے۔ جب تک تم اپنے امور میں عقل و بصیرت سے کام لو گے اور جو کچھ تمہارے اطراف میں ہو رہا ہے اس سے سبق حاصل کرو گے اپنے دشمنوں کے نیتوں سے باخبر رہو گے تو طاقت اور قدرت تمہارے ہاتھوں میں رہے گی، مولائے کائنات فرماتے ہیں: «فَلیَنْتَفِع امْرؤٌ بِنَفْسِهِ، فَإنَّمَا البَصیرُ مَنْ سَمِعَ فَتَفَکَّرَ، وَنَظَرَ فَأَبْصَرَ، وانتَفَعَ بِالعِبَرِ، ثُمَّ سَلَکَ جدَداً واضِحاً یَتَجَنَّبُ فِیهِ الصرعَةَ فی المَهاوی، والضَلالَ فی المَغاوی، ہر انسان کو اپنے وجود سے فائدہ اٹھانا چاہیے، بینا وہ شخص ہے جو سنے اور غور کرے، دیکھے تو بصیرت سے کام لے، عبرتوں سے نصیحت حاصل کرے، اور اس کے بعد واضح راستہ انتخاب کرے، گڑھوں میں گرنے اور گمراہی میں کھونے سے خود کو بچائے۔( نہج البلاغہ)

واضح رہے کہ کئی مہینوں سے عراق میں جہاں ایک طرف داعش کے حملوں کا زور ہے اور عوام دھشتگردوں کا مقابلہ کرنے میں مصروف پیکار ہیں وہاں دوسری طرف سیاسی رہنماوں میں شدید رسہ کشی جاری ہے حتیٰ ایک ساسی گروہ نے گزشتہ ہفتے بغداد کے گرین زون میں داخل ہو کر پارلیمانی عمارت پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کی۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

ایک شامی بچے کا خطّ

 
شکریہ اس سمندر کا جس نے بنا ویزے کے ہمارا استقبال کیا 
اور شکریہ ان مچھلیوں کا جو عن قریب میرا گوشت بانٹ کھائیں گی
 بنا پوچھے کہ میرا دین کیا ہے اور میری سیاسی وابستگی کس کے ساتھ ہے؟
سوشل میڈیا پر سرگرم شامی کارکنوں میں اس خط کا مضمون زیر گردش ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا سے کہ یہ خط ان شامی پناہ گزینوں میں سے ایک کی جیب میں پایا گیا جو چند روز قبل بحر روم میں ڈوب گئے اور ان کی پھولی ہوئی لاشیں سطح آپ پر نمودار ہوئیں. ان کی کشتی کئی سو غیر قانونی مہاجرین کو لے کر بحر ابیض میں سفر کر رہی تھی اور اس کی منزل یورپ کا ساحل تھا.
اب تک یہ الوداعی خط لکھنے والے کی شناخت تو نہیں ہو سکی، تاہم مضمون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے یہ خط اس وقت لکھا کہ جب اسے احساس ہو چلا کہ جس کشتی پہ وہ سوار ہے وہ ڈوبنے کو ہے.
البتہ سوشل میڈیا پہ سرگرم کارکنان نےاپنی والز پہ اس خبر کے ساتھ خاصی متاثر کن عبارتیں چسپاں کی ہیں، مثلا:
'مہذب دنیا کے نام ایک تحفہ!
موت سے بھاگنا چاہ رہا تھا اس لیے سمندر نے اسے اپنی اَغوش میں بھر لیا. پڑھیے ضرور! مگر اَنسو مت بہائیےگا کہ شامی مسلمانوں پر امت کے اَنسو اب خشک ہو چکے ہیں.'
اناضول خبر ایجنسی کے جانب سے جاری کردہ اس مبینہ خط کا متن ان کارکنان نے کچھ یوں نقل کیا ھے:
'ماں! میں شرمندہ ہوں کہ کشتی ڈوب رہی ہے اور میں اپنی منزل پر نا پہنچ سکا. اب میں وہ رقوم نہیں بھیج پاؤں گا جو میں نے بطور قرض لی تھیں اس سفر کےاخراجات بھرنے کے لیے!
ماں! اگر میرا لاشہ ڈھونڈنے والوں کو نہ ملے تو غم مت کرنا! اب تمہیں اس سے ملنا ہی کیا ہے؟ سوائے لاش کی منتقلی، کفن دفن اور تعزیت کے اخراجات کے!
ماں! مجھے افسوس ہے کہ جنگ شروع ہوگئ اور مجھے بھی دوسروں کی طرح سفر پر نکلنا پڑا. آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے تو دوسروں کی طرح بڑے بڑے خواب بھی نہ تھے! آپ تو جانتی ہیں کہ میرے خواب تو صرف تیری کولون کی تکلیف کی دوا کی ڈبیہ اور تیرے دانتوں کے علاج کی فیس ہی تھے!
ویسے اب میرے دانتوں کا رنگ سبز ہوچکا ہے، کیوں کہ ان میں سمندری گھانس پھنسی ھوئی ہے، لیکن اس کے باوجود میرے دانت ڈکٹیٹر [بشار الاسد] کے دانتوں سے تو اچھے ہی ہیں!
میری پیاری تم سے بھی معذرت کہ میں نے تمہارے لیے خیالی اَشیانہ ہی بنایا. ایک لکڑی کی خوب صورت سی جھونپڑی جیسا کہ ھم فلموں میں دیکھا کرتے تھے. ایک سادہ سا اَشیانہ کہ جو پھٹتے ڈرم بموں سے بہت دور! گروہ بندی و نسلی شناختوں سے کوسوں دور! جہاں پڑوس کی جانب سے ہمارے بارے میں اڑائی جانے والی افواہیں نہ پہنچتی ہوں!
بھائی! میں تم سے بھی شرمندہ ہوں کہ میں تمہیں وہ 50 یورو ماہوار نہیں بھجوا پاؤں گا کہ جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا اور جن سے تم نے اپنی تعلیم مکمل کرنی تھی!
بہنا! مجھے معاف کر دینا کہ میں تمہیں وہ نیا فون نہی بھجوا پاؤں گا کہ جو تمہاری امیر سہیلی کے پاس ہے!
میرےپیارے گھر! میں شرمندہ ہوں کہ اب دروازے کے پیچھے اپنا کوٹ نہیں لٹکا پاؤں گا!
معذرت! اے غوطہ خوروں اور گم شدہ لوگوں کو تلاش کرنے والو! مجھے تو اس سمندر کا نام بھی نہیں پتا کہ جس میں ڈوب رہا ہوں!
مہاجرین سے متعلق عالمی ادارو! مطمئن رہنا کہ میں تم پر بھاری بوجھ نہیں بننے لگا!
شکریہ اس سمندر کا جس نے بنا ویزے کے ہمارا استقبال کیا اور شکریہ ان مچھلیوں کا جو عن قریب میرا گوشت بانٹ کھائیں گی!
میں ان نیوز چینلز کا بھی مشکور ہوں کہ جو پورے 2 دن ہر گھنٹے میں 5 منٹ مسلسل ہماری موت کی خبر نشر کریں گے!
اَپ سب کا بھی شکریہ کہ جب اَپ ہمارے مرنے کی خبر سنیں گے تو کبیدہ خاطر ہوں گے!مجھے افسوس ہے کہ میں ڈوب گیا!
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

کشمیر میں جھڑپیں

 
 
جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہفتہ کی علی الصبح جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین ہونے والی ایک شدید جھڑپ میں حزب المجاہدین (ایچ ایم) سے وابستہ تین جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔
جنگجوؤں کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ سیکورٹی فورسز کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے جنہیں منتشر کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔
جھڑپ کے مقام پر گرینیڈ پھٹنے سے ایک کمسن لڑکا زخمی ہوگیا ہے۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

TIPU SULTAAN

Sat 07 May 2016, 17:56:24
 
عبدالرافع رسول
ہربرس 5مئی کو یوم شہادت ٹیپو سلطان کے طورپر منایاجاتاہے۔ یہ وہ شیردل ،جری اوربہادرمسلمان حکمران تھا کہ جو امت مسلمہ کونصیحت کرتے ہوئے گویاہوئے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی 1929 میں آپ نے شہید سلطان کی ترقی درجات کے لئے دعاکی غرض سے شہیدکی قبرکے سرہانے کی جانب کھڑاہوئے تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔اس موقع پر آپ نے فرمایا!ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کے اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا۔اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو ٹیپو سلطان شہید کو دیکھا جاسکتا ہے۔ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھابلکہ حقیقی معنوں میں اقبال کا ایک مردِ مومن تھا۔ عالِم بھی تھا، عابد بھی۔ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین منتظم بھی۔ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما اور قائد بھی۔ برصغیر کی تاریخ میں ٹیپو سلطان کو ایک لازوال اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کی تاریخ بمشکل اس اولوالعزم سلطان کی نظیر پیش کر سکے گی۔جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی، اس نے دو اہم کام کئے۔ ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین تودوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر پوری توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے تو پھر ہندوستان پر قبضہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے بھی مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔
ٹیپو سلطان کی حیات ایک سچے مسلمان حکمران کی زندگی تھی۔ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو’’ مملکت خدادادمیسور‘‘ کا نام دیا ۔حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے ۔باوضو رہنا اور تلاوت قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے ۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے ۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظم کیا ۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹنم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غدار میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹنم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گیا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو ہلاک کیا اور سرنگاپٹنم کے قلعے کے دروازے پر 5 مئی 1799 میں سرنگا پٹنم، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ بنگلور، ہندوستان میں 20 نومبر 1750 میں حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی۔ٹیپوبھی اپنے والدبزرگوارکے نقش قدم پرچلے اورآپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لئے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے ۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔لیکن المیہ یہ ہواکہ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کے لئے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔
ٹیپو سلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کے زوال کے بعد انگریزوں کے مقابلے کے لیے کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ ملک میں ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ٹیپو سلطان ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی شہاد ت کے بعد ہی ان کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ نکلا کہ ’’ آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔ ٹیپو سلطان کے عہدِ حکومت اور انتظامِ ریاست کا بغور مطالعہ کیا جائے توپتاچلتاہے کہ ٹیپو سلطان نے اپنے عہد حکومت میں زندگی کا کوئی لمحہ اطمینا ن اور چین سے نہیں گزارا۔ یہ سارا عرصہ جنگی معرکوں میں گزرا جو مہلت ملی اس میں وہ اپنے زیرِ اقتدار علاقوں میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے، نہروں اور تالابوں اور سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنیدجیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ میدان جنگ کے نقشوں کو مرتب کرتا،انگریزسامراج کے خلاف لڑائی کی منصوبہ بندی کرتا اور اپنے عمال حکومت، فوجی سالاروں اور قلعہ داروں کو ہدایات جاری کرتا۔ اس کی شہادت کے بعداس کے ذخیرے سے ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات اس کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس فرمانرو ا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شہزادگی سے شہادت تک مسلسل خوفناک لڑائیوں میں گزرا، اسے ان معاملات پر توجہ دینے کا وقت کیوں کر ملتا تھا۔ حق یہ ہے کہ سلطان حکومت کو خدا کی طرف سے امانت سمجھتا تھا اور اس امانت کا حق ادا کرنے کی جیسی عملی مثال اس نے پیش کی، اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔
        ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعداپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں انہوں نے اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات، لسانی و طبقاتی عصبیت کا خاتمہ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا۔ملک کے قدیم طرز حکمرانی کو یکسر بدل دیا۔سلطنت کے امور میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے ایک مجلس شوری قائم کی جس کا نام’’ مجلس غم نباشد‘‘تھا۔ٹیپوسلطان نے تخت نشین ہونے کے بعد دو نئے آئین بنائے۔ ایک فوج کے لیے جس کا نام ’’فتح المجاہدین‘‘ تھا اور دوسرا عوام کے لیے جس کا نام ملکی آئین تھا۔ سرنگا پٹنم میں’’ جامع الامور‘‘ کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی جہاں بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حکومت کی طرف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو بھاری مشاہرہ پر یہاں مقرر کیا گیا تھا۔
        ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے۔ مثلا بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ا وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کردیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے مثلا محمدی، صدیقی، فاروقی، عثمانی ،حیدری وغیرہ۔ نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیں، ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے ایک نئی تدبیر سوچی۔ ہر مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت اگانے کی ذمہ داری سونپی۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت تجویز پاتا جس کے لیے کم محنت و مہلت درکار ہوتی اور سنگین جرم کے لیے ایسا درخت اگانے کی ذمہ داری جس کے لیے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔ سلطان معمولی سے معمولی مسئلہ میں بھی پور ی توجہ ظاہر کرتا تھا۔ علوم و فنون، طب، تجارت، معاملات مذہبی، تعمیر، فوجی محکمات اور بے شمار دوسرے امور پر سلطان یکساں مہارت سے قطعی رائے دیتا تھا۔
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں باآسانی سوراخ کیا جاسکتا تھا۔ دنیا میں میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔ حتی کے امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانہ میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔سلطان کی بری اور بحری فوجوں کا انتظام قابل داد تھا، فوج کے محکمہ میں گیارہ بڑے بڑے شعبے تھے، سلطنت کے کل رقبہ کوکئی فوجی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس نے میں امرا البحر کی ایک جماعت قائم کی۔ جس میں گیارہ اراکین تھے۔ ان اراکین کا لقب میریم رکھا گیا تھا۔ ان اراکین کے ماتحت  امیر البحر تھے۔ بحری فوج کے متعلق بیس جنگی جہاز کلاں اور بیس چھوٹے جنگی جہاز تھے۔ سلطان کو فن جہاز سازی سے بھی شغف تھا۔ وہ جہازوں کے نقشے خود تیار کرتا تھا۔ جہازوں کے پیندوں کے واسطے ہدایت کی گئی تھی کہ تانبے کے پیندے لگائے جائیں تاکہ چٹانوں سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔ جہاز سازی کے لیے لکڑی کا جنگل بھی نامزد کردیا گیا اور سب مدارج کے افسروں کی تنخواہوں کی بھی صراحت کردی گئی۔ فوجیوں کی باقاعدہ تربیت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے اور پوری فوج کو ازسرنو منظم کیا گیا۔
ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبہ اور قلعہ کے چار دروازے مقرر کیے جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میں بغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رویدادپر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوں کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔ عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گاں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائیکورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کررکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگاپٹنم(دارالحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔  میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔
ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ بعض بری روایات کو روکنے کے لیے ہندئووں کے مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ جاگیرداریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں او ر کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپوسلطان نے احکام جاری کردیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے،اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کئے۔ دور دور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کئے۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور سلطنت میں تیار کردہ چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ دوسری طرف ہزاروں بے روزگاروں کے مسائل بھی اس سے حل ہوئے۔
اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعدٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خدادادمیسور میں آ کر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیر سرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہوسکتا تھا۔ وسط ایشیا کی ریاست آرمینیا سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو مالابار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میسورمیں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔
سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا، وہیں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کئے۔ تمام سلطنت میں، رعایا، تاجروں اور کاشتکاروں کے لیے بغیرسودبنک جاری کئے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوشحال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریزجب اس علاقے میں داخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔عربی کا ایک مقولہ ہے کہ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن کرے۔ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کے بے انتہا تعصب کے باوجود کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے۔کہ ’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے۔جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے اس پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بیکار نہیں پائی گئی۔ رعایا اورفوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے‘‘۔ بقول اقبال:
                        رفت سلطاں زیں سرائے ہفت روز
                        نوبتِ او در دکن باقی ہنوز
خیال رہے کہ بھارت کی ہندوانتہاپسندوں کی شرپسندانہ کارروائیاں جہاں بدستورجاری ہیں۔وہیںگذشتہ تین ماہ قبل شیرمیسورٹیپوسلطان کی سالگرہ کے موقع پربھارتی ریاست کرناٹک میں تقریب منعقدہورہی تھی جس پرہندوانتہاپسندوں نے دھاوابول کرکھلبلی مچانے کی نامرادکوشش کی تھی۔بھارتی صوبے کرناٹک کی کانگرسی حکومت نے ٹیپوسلطان کی سالگرہ کو سرکاری طورپرمنانے کا اعلان کیاتھا،جس پر آرایس ایس اوربی جے پی سیخ پاہوئی انہوں نے ان تقریبات کو روکنے کا اعلان کردیا،لیکن اس کے باوجودجب کرناٹک کے قصبے میڈیکری میں مسلمانوں نے شیرمیسور ٹیپوسلطان کی سالگرہ کی تقریب کا انعقاد کیا،تواس پرویشواہندوپریشد اورآرایس ایس کے بلوائیوں نے حملہ کردیا،حملہ آوروں نے تقریب کے شرکا ء پرپتھراو کیا۔مارکٹائی کے اس واقعے کے بعدعلاقے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ امت اسلامیہ کا اہم ترین فریضہ جاہلیت کے محاذکا مقابلہ کرنا ہےجس کی سرپرستی امریکا کر رہا ہے-

ا5, 2016 - 3:57 Pمئ M

  • News Code : 752203
  • Source : آئی آر آئی بی
Brief

 

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعرات کو پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم بعثت کی مناسبت سے ایران کے اعلی حکام ، تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں اور شہدا کے اہل خانہ سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بعثت رسول اکرم (ص) کی تعلیمات کو عام کرنے میں پیشقدم ہے اور اس مشن کو جس کا آغاز امام خمینی (رح) نے کیا تھا بڑی طاقتوں سے مرعوب ہوئے بغیر آگے بڑھا رہاہے -رہبرانقلاب اسلامی نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے بعثت کے گہرے مفاہیم پر روشنی ڈالی - آپ نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ انسانیت ہمیشہ بعثت کی تعلیمات کی محتاج رہے گی،جاہلیت کے محاذکو بعثت کے مدمقابل محاذ قراردیا اور فرمایا کہ جاہلیت کا تعلق پیغمبراسلام کے دور سے ہی نہیں ہے بلکہ پیغمبران الہی نے ہدایت کا جو راستہ متعارف کرایا تھا اس کے مدمقابل ایک محاذ کا نام ہے، جو آج سائنس وٹیکنالوجی کا استعمال کرکے نئی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہے-

رہبرانقلاب اسلامی نے اس بات پر زوردیتے ہوئے کہ دنیا پر حکمفرما صیہونی نظریہ شیطانوں کے بنائے ہوئے نظام کا واضح نمونہ ہے، فرمایا کہ دنیا کی موجودہ صورتحال صیہونیوں کے وسیع سرمایہ دارانہ نظام کی اجارہ داری کا نتیجہ ہےجو امریکا جیسی حکومت پر بھی غلبہ اور اثرورسوخ رکھتاہے آپ نے فرمایا کہ( امریکا اور صیہونیوں کے زیراثرملکوں میں )وہی دھڑا اور جماعت اقتدار میں آسکتی ہے جو صیہونیوں کی پیروی کرے -

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ امت اسلامیہ ، ایران اور اسلامی بیداری کی عظیم تحریکوں کی بنیاد، فاسد صیہونی لابی کی حکمرانی اور اجارہ داری کا مقابلہ کرنا ہے -آپ نے فرمایا کہ آج اسلام دشمنی، ایران دشمنی اور شیعہ دشمنی امریکا اور اس سے وابستہ حکومتوں کی اصل پالیسی ہے -

رہبرانقلاب اسلامی نے ، بڑی طاقتوں کے فتنہ و فساد کے مقابلےمیں امت اسلامیہ اور ایرانی عوام کی ہوشیاری کو ان طاقتوں کی ناراضگی کا اصل سبب قراردیا اور فرمایا کہ چونکہ ایران علاقے میں امریکا کی پالیسیوں کی مخالفت کرتاہے اسی لئے وہ ایران پرپابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دیتاہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو ہی علاقے میں اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتاہے -

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زوردیتے ہوئے کہ جاہلیت اور شیطانی طاقتوں کےمحاذ کی حکمرانی کا نتیجہ طغیان، طاغوت اور سرکشی ہے فرمایا کہ جاہلیت اور طاغوت کا محاذ، ایٹم بم کے ذریعے ہیروشیما میں لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیتاہے لیکن کئی عشرے گذرجانے کے بعد بھی وہ معافی مانگنے کے لئے تیارنہیں ہے -

آپ نے فرمایا کہ یہی محاذ عراق، افغانستان اور دیگرملکوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے لیکن کہیں سے شرمندگی کا اظہار نہیں کررہا ہے ۔

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی بھی کسی کے خلاف جنگ شروع نہیں کی ہے اور نہ ہی وہ کسی کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتاہے لیکن وہ اپنے موقف کو پوری قوت کے ساتھ بیان کرتاہے اور آئندہ بھی اپنے موقف کا اعلان کرتارہے گا -

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali