( چھل حدیث 1 )

الحمد للہ علی ما انعم والھم،والصلوۃ والسلام علی نبیّ الاکرم،وعلی آلہ المعصومین حجج اللہ امّا بعد فقد قال رسولۖ الثقلین:مَنْ‏ حَفِظَ عَلَى أُمَّتِی أَرْبَعِینَ حَدِیثاًیَنْتَفِعُونَ بِهَا بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَقِیهاً عَالِماً.

مختلف الفاظ اورکچھ کمی و زیادتئ عبارت کے ساتھ یہ حدیث ائمّہ علیہم السلام نے نبی کریمۖ سے نقل کیا ہے کہ جو بھی میری امت میں سے چالیس احادیث کو یاد کرے کہ جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں تو روز قیامت خدا اسے فقیہ و عالم اٹھاۓ گا۔

کسی روایت میں(( یحتاج الیہ من امر دینہ)) کی قید بھی ہے، کسی میں حلال وحرام سے تصریح کی گئی ہے،کسی میں سنّۃ سے تعبیر کیا گیا ہے اور کسی روایت میں پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چالیس خصائل گناۓ بھی ہیں،لیکن علماء کا یہ شعار رہاہے کہ تبلیغ سنت و علوم نبوی کی خاطر چالیس احادیث انتخاب کر تے ہیں اور اس کے ضمن میں فضائل ومناقب،نصائح ومواعظ اورھر وہ موضوع کہ جس کے متعلق تحریر کا قصد رکھتے ہیں ذکر کر تے ہیں۔

اگر چہ اس حدیث کو ضعیف بھی قرار دیا گیا ہے لیکن کیونکہ فضائل اعمال میں ‌ضعیف حدیث بھی قابل قبول ہے اس لۓ اس حدیث پر عمل کیا جاتاہے اور اسی حدیث نویسی کے طریقہ کو لے کر علماء و مصنّفین نے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور اسی کا سھارا لیتے ہوۓ بہترین موضوعات پر کتابیں لکھی گئی ہیں ۔

اس حدیث میں ھزار طرح کے شوشہ نکالے گیۓ ہیں لیکن اصل مراد ظاھر ہے کہ جو بھی چالیس احادیث کو یاد کرے اور اسے لوگوں تک پہنچاۓ جو ان کی منفعت و مصلحت میں ہو تو اس تبلیغ کی جزا یہ دی جاۓ گی کہ روز قیامت فقیہ و عالم اٹھایا جاۓ گا ۔ اربعین ھاشمیہ میں بانوی ایرانی ک یہ عبارت ہے : انّ المراد من جمیعھا حفظھا بحیث یکون محرّکا للعمل بھا مع خلوص النیۃ ۔ ( اربعین ھاشمیہ ، ص 6 )

اس طرح کی تالیفات کا نام تو چھل حدیث ھی ہو تاہے لیکن اس کے ضمن میں بیشمار احادیث بھی ذکر کۓ جاتے ہیں۔

لیکن اکثروبیشتر متقدّمیں میں چھل حدیث کسی ایک موضوع کے تحت احادیث کی جمع آوری اوران کے مشکل الفاظ کی شرح میں ہیں لیکن متوسّطین میں اکثر "اربعین" فضائل ومناقب کے لۓ منتخب کی گئی اورمتاخّرین میں اکثر کتب اربعین ، عارفانہ وسالکانہ انداز میں لکھی گئی ہیں۔

بقول استاد کاظم مدیر شانہ چی کے سب سے پہلے جس نے اربعین کے نام سے کتاب تالیف کی تھی وہ دوھمزمان اشخاص ہیں،ابوالحسن طوسی،محمد بن اسلم بن سالم کندی متوفی 242 ھ کہ یہ خراسان کے ثقات محدّثین میں سے ہیں۔اور دوسرے ابوالحسن طوسی،مؤید بن محمد بن علی قرشی حافظ،متوفی 242 ھ کہ یہ بھی ثقات محدّثین میں سے تھے۔ (19)

بعض نے اربعین کی بھی اربعین لکھی ہیں جیسے کہ مفسر ابوالفتوح کے جدّ،حافظ ابو سعید محمد بن احمد بن الحسین نیشاپوری کی یہ کتاب [الاربعین عن الاربعین فی فضائل امیرالمؤمنین]  یا منتجب الدین علی بن عبیداللہ بن الحسن بن الحسین بن بابویہ،صاحب فھرست مکمّل کی یہ تالیف [الاربین عن الاربعین عن الاربعین]۔

اسلام میں یہ چالیس کی عدد بہت معتبر جانی گئی ہے بعثت پیامبرۖ چالیس سال میں ہوئی،جو چالیس دن تک اپنے آپ کو اللہ کے لۓ خالص کر لے اللہ اس کی زبان پر حکمت کے چشمہ جاری کرتاہے ، مرحوم و شھداء کی یاد میں چالیس روز بعد چھلم منایاجاتاہے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک شخص نے صرف اربعینات کے نام سے ایک منفرد کتاب تالیف بھی کی ہے جو آستان قدس رضوی سے شائع ہوئی ہے ۔

چھل حدیث نویسی کو علماء اعلام و حکماء اسلام نے اس قدر شھرت دی کہ یہ ایک فنّ اور مھارت کی حیثیت سے بھی لکھی جانے لگی ۔ بعض ماھر حضرات نے رسول خدا ۖ  کی چالیس احادیث صرف علی علیہ السلام ھی کی سند معتبر سے نقل کیۓ ہیں جیسے اربعین ولی اللھی ، بعض نے چھل حدیث کو چھل معتبر شیوخ و روات سے استخراج کیۓ ہیں ۔ جیسے الأربعون حدیثا عن أربعین شیخا من أربعین صحابیا فی فضائل الإمام أمیر المؤمنین علیه السلام ( منتجب الدین ، علی ابن عبید اللہ ابن بابویہ الرازی) ۔ گویا ک یہ سنّت پیامبر ۖ ایک فنّ و فرھنگ کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔