اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ سید الشہداء علیہ السلام کے اربعین (چہلم) کی تکریم و تعظیم اور سوگواری کی دلیل، امام حسن عسکری علیہ السلام سے منقولہ روایت ہے جہان آپ(ع) نے فرمایا ہے:
مؤمن کی نشانیان پانچ ہیں: ... اور زیارت اربعین کی تلاوت ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے صفوان بن مہران جمّال کو زیارت اربعین، سکهائی ہے جس میں اربعین کی تکریم و تعظیم پر تأکید فرمائی ہے۔
شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 788- 789
قدیم شیعہ منابع کے مطابق "اربعین" کی اہمیت دو وجوہات کی بنا پر قابل توجہ ہے:
1۔ اس روز فرزندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ، شام میں یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کی اسارت سے آزاد ہوکر مدینہ کی طرف لوٹے تھے۔
2. اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے مشہور و معروف صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضوان اللہ تعالی علیہ نے کربلا میں حاضر ہوکر قبر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی تھی۔
 
اربعین کے بارے میں علماء کی رائے
شیخ مفید، شیخ طوسی اور علامہ حلّی (قدس سرہم) اس سلسلے میں رقمطراز ہیں:
20 صفر کا دن وہ دن ہے کہ حرم امام حسین علیہ السلام شام سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹا؛ اور اسی روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی نیت سے مدینہ سے کربلائے معلی مشرف ہوئے اور جابر پہلی شخصیت ہے جنہوں نے قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی۔
رضی الدین علی بن یوسف مطہر حلی، العدد القویہ، ص 219
اور سید ابن ‏طاؤس نے «اقبال الاعمال» میں، علامہ حلی کتاب «المنتہی» میں، علامہ مجلسی نے کتاب «بحارالانوار» کے باب "مزار" میں، شیخ یوسف بحرانی نے کتاب «حدائق»، حاجی نوری نے کتاب «تحیة الزائر» میں اور شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب مفاتیح میں ـ سب نے ـ شیخ طوسی کے حوالے سے نقل کیا ہے:
اربعین اور زیارت امام حسین علیہ‏السلام کا دو نامون کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ ان میں سے ایک نام «عطیة بن عوف کوفی» کا ہے جو امام حسین علیہ السلام کے پہلے چالیسویں پر کربلا مشرف ہوئے اور امام علیہ السلام کے مرقد منور کی زیارت سے مستفیض ہوئے۔
 
جس وقت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک نیزے پر اور اہل بیت علیہم السلام کو اسیر کرکے شام لے جایا گیا؛ اسی وقت سے کربلا میں حاضری کا شوق اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کا عشق دسترس سے بالکل باہر سمجها جاتا تها؛ کیونکہ اموی ستم کی حاکمیت نے عالم اسلام کے سر پر ایسا دبیز سیاہ پردہ بچها رکھا تها کہ کسی کو یقین نہیں آسکتا تها کہ ظلم کا یہ پردہ آخر کا پهاڑا جاسکے گا اور کوئی نفاق کے اس پردے سے گذر کر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا میں حاضری دے سکے گا۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی محبت کی آگ اس طرح سے ان کے عاشقوں کے قلب میں روشن تھی کہ اموی اور عباسی طاغوتوں کی پوری طاقت بھی اسی گل نہ کرسکی۔
جی ہاں! یہی محبت ہی تو تھی جو عاشق اور دلباختہ انسانوں کو کربلا تک لی گئی اور امام شہداء علیہ السلام کی شہادت کے چالیس روز نہیں گذرے تھے کہ عشق حسینی جابر بن عبداللہ انصاری کو کربلا کی طرف لے گیا۔
جابر جب کربلا پہنچے تو سب سے پہلے دریائے فرات کے کنارے چلے گئے اور غسل کیا اور پاک و مطہر ہوکر ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کی قبر منور کی طرف روانہ ہوئے اور جب پہنچے تو اپنا ہاتھ قبر شریف پر رکھا اور اچانک اپنے وجود کی اتہاہ سے چِلّائے اور بے ہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آئے تو تین بار کہا: یا حسین! یاحسین! یا حسین اور اس کے بعد زیارت پڑھنا شروع کی۔
 
اربعین کے روز زیارت امام حسین علیہ السلام پر تأکید