بسم اللہ الرحمن الرحیم

                             ( فلسفۂ غیبت )                            

کی رفتۂای زدل کہ تمنّا کنم ترا

کی بودۂای نہفتہ کہ پیدا کنم ترا

اس شعر سے آغاز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غیبت تو ھماری ہے پردہ تو ھماری آنکھوں پر پڑا ہے، غیبت میں رکاوٹ تو ھم خود ہیں ،  وہ تو ھر جا ہیں اور ھر وقت ہیں انھیں غیبت کہاں؟ چشم بینا میں انھیں دیکھنے کے لے بصیرت چاہیۓ ۔

اس دل نے خاکسار دنیا سے کیا حاصل کیا ہے سواۓ غم و اندوہ کے جس میں امام عج سے قربت و ملاقات کا اشتیاق نہ ہو ، وہ آنکھیں کوئی لذّت و سعادت نہیں پائی جس نے امام عج کی فرقت میں اشک مودّت نہ بہائی ہوں ۔ جینا اسی دل کا ہے جس میں امام عج کی محبت سمائی ہو ، باحیات وہ دل ہے جس میں امام عج سے دوری و غیبت کا غم بھرا ہو ۔

فلسفۂ غیبت یعنی علّت و سبب غیبت کہ امام زمان عجل اللہ تعالے فرج الشریف کیوں پردۂ غیب میں ہیں ؟ وہ اسباب و عوامل کیا ہیں جن کے سبب امام نے غیبت اختیار کی ہے یا خدا نے امام علیہ السلام  کو زمانہ کی نظروں سے کیوں چھپا رکھا ہے ۔

جب قتل و ظلم و فساد کا خوف ہوتاہے تو خداوند متعال اپنے نمائندہ و جانشین کو لوگوں کی نگاھوں سے دور کر دیتاہے اور امامت جو لطف پروردگار ہے اس سے اپنے بندوں کو محروم کردیتاہے اور اس کے پسندیدہ مخلوق کو شرّ الناس سے محفوظ رھنے کے لۓ غیبت اختیار کرنی پڑتی ہے ، تاریخ میں بہت ساری غیبت صغری و کبری ہوئی ہیں اور بہت سارے انبیاء خدا کو غیبت اختیار کرنی پڑی ہیں جیسے کہ جناب ابرھیم علیہ السلام  کی ولادت مخفی طور پر ہوئی اور کئی سال تک غیبت میں رہے اوربعد میں ظھور کیا ، پس اسی طرح انبیاء و اولیاء خدا نے بھی ایک مدّت کے لۓ غیبت اختیار کی ہے حتّی کہ جناب آدم علیہ السلام نے بھی غیبت اختیار کی تھی جب آپ کو خلق کیا گیا تھا ۔

فلسفۂ غیبت کے جملہ عوارض میں سے کچھ یہ ہیں :

·        امام عج کے قتل ہو جانے کا خوف ۔

·        زمانہ کی شرّانگیزیاں ۔

·        ناموافق حالات و مقتضاۓ مشیت پروردگار ۔

·        تاکہ ھر باطل پرست حقّ کا راستہ چھوڑ دے اور صرف مؤقنین و مؤمنین دائرۂ ایمان میں بچ جائیں۔

·        تاکہ جب امام عج ظھور کریں تو کسی کی بھی بیعت ان کے ذمّہ نہ رہے ۔

·        غیب و سرّ الھی ۔

·        تاکہ حجّت خدا تا قیامت باقی رہے ۔

·        تاکہ اس امّت میں وہ سارے واقعات رونما ہو جائیں جو گذشتہ امّتوں میں ہوئی تھی ۔

·        تاکہ ھم اپنے آپ کی اصلاح کر لیں ، زمانۂ غیبت کبری ھماری خودسازی کی مھلت ہے ۔

·        ایک ایسی حکمت  فلسفۂ غیبت میں رکھی گیئی ہے جو ذکر نہیں کی جا سکتی تھی ۔

ان کے علاوہ اور بہت سارے عوامل ہیں جن کے سبب حجّت کبری و بالغۂ خدا پردۂ غیب میں ہے ، حرف مختصر یہ کہ امام عج مشیت خدا کے تحت پردۂ غیب میں ہیں جب وہ گھڑی آئے گی تو ایک ھی رات میں خدا امام عج کے ظھور کا سامان مھیّا کر دے گا ۔

کتنی افسوس کی بات ہے کہ ھم جیسے عاصی بندوں کے لۓ روۓ ارض پر جاۓ پناہ ہے لیکن جن کے صدقہ میں کائنات خلق کی گئی خود انھیں دنیا میں جینے کی مصلحت و امنیت نہیں ہے ۔ آیات قرآن میں جو ذکر ہوا ہے اس کی بھی تکمیل نہیں ہوئی جب خدا کی آخری حجّت ، امام قائم عج ظھور کریں گے تو ان کے دم سے قرآن بھی پورا ہو گا اور اسلام بھی پورا ہو گا ۔  

عقل اس کا انکار نہیں کرتی کہ کوئی چیز ہو اور آنکھوں سے اوجھل ہو ، بظاھر نظر نہ آتی ہو ۔ کیونکہ ایسے بیشمار چیزیں ہیں جو آنکھوں کو نظر تو نہیں آتی لیکن ھر چیز میں اصل وھی ہو تی ہیں ، ھمارا وجدان گواھی دیتاہے کہ ان چیزوں کا بھی وجود ہے جن کو ھم دیکھ نہیں سکتے ، اور ایسی چیزیں اکثر بصارت سے دیکھی نہیں جاتی بلکہ بصیرت سے جانی جاتی ہیں ،بس اسی طرح سے امام زمانہ عج بھی ہیں ، خیانت و ھوس و ضلالت بھری آنکھیں تو نہیں دیکھ سکتی لیکن ایمان سے لبریز دل انھیں محسوس کرتاہے ۔

دیکھا نہیں ہےپھول کی نکہت کو آنکھ سے     دیکھا نہیں ہےعشق کی لذّت کوآنکھ سے

دیکھا نہیں ھوا کی  لطافت  کو آنکھ  سے     دیکھا نہیں ہے اپنی بصارت کو آنکھ  سے

غیبت کاان کی اسکی ہےقدرت پہ انحصار

ان کے وجود کا نہیں رویت پہ انحصار

غیبت کے ہیں حجاب میں آتے نہیں نظر     انساں میں عقل،دل میں وفا،سنگ میں شرر

سینہ میں علم،گل میں مہک،آنکھ میں نظر     نکہت گلوں میں،عطر میں بو،حسن میں اثر

ان کے ظھور شکل کی حاجت نہیں کوئی

پردہ میں وہ رہیں تو قباحت نہیں کوئی

پردہ برائیوں کے خوف سے بچنے کے لۓ ڈالا جاتاہے ،پردہ ان چیزوں پر ڈالا جاتاہے جو لائق تعظیم وقابل احترام ہوتی ہیں اب چاہے یہ عام معنوں میں ہو یا غیبت امام عج کے لۓ ہو یا ذات خدا کے لۓ ہو ، ھر وہ چیز جو خاص الخاص ہو تی ہے اس کے لۓ حجاب زینت بن جاتا ہے ۔

پردہ صاحب پردہ کی شخصیت کو چھپاتا نہیں بلکہ اور اجاگر کر دیتاہے جس چیز پر پردہ پڑجاتاہے اس کی عظمت بڑھ جاتی ہے ۔

 پردہ اس وقت تک پردہ ہے جب تک شۓ محجوب معلوم نہ ہو اور جن کے لۓ صاحب حجاب آشکار ہو ان کے لۓ غیبت بھی حضور اور پوشیدہ بھی ظاھر کا حکم رکھتا ہے ۔

میان عاشق و معشوق ھیچ حائل نیست

پردہ اسی وقت پردہ ہے جب تک ھماری آنکھوں پر پڑا ہو اس کے لۓ وہ چھپا ھی کہاں ہے جو صاحب پردہ کو جانتاہو ۔

پردہ تو زمانہ کی نگاھوں پہ پڑا ہے

اور کچھ پردہ تو پڑتے ھی لطف کے ہیں یعنی جب تک وہ پردہ پڑا ہے تب تک مخفی شۓ سے لطف اندوز و محظوظ ہوئیے لیکن جیسے ھی وہ پردہ ھٹ جاۓ گا اس وقت صرف تکلیفی صورت باقی رہ جاۓ گی ۔

محرم نہیں ہے تو ھی نواھاے راز کا

ورنہ یہاں جو پردہ ہے پردہ ہے ساز کا

شاید امام زمانہ کا پردہ بھی لطف کا ہے کہ جب یہ اٹھ جاۓ گا تو سارے اسرار فاش ہو جاۓ گے اور امام کا پردۂ غیب سے آنا ساری کائنات کے چھپے چہروں سے پردہ اٹھانا ہے ۔ جب تک پردہ پڑا ہے تب تک امام کے تصوّروجود سے لطف اٹھائیے لیکن جس دن یہ پردہ اٹھ جاۓ گا اس دن کائنات کے سارے پردہ اٹھ جاۓ گے پھر صرف تکلیفی شکل باقی رہ جاۓ گی ۔ فلسفۂ غیبت یہ ہے کہ ھم امام عج کے غیبت کے دور ھی میں اپنے ایمان کو استوار اور عمل کی اصلاح کر لیں اور اس مھلت غنیمت کو ہاتھ سے جانے نہ دیں ، آج قول و لطف و ارشاد معصوم ہے ، کل تلوار و قتل و انتقام ہو گا ۔ اور وَ قاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّةً کَما یُقاتِلُونَکُمْ کَافَّة  کی تعبیری صورت ہو گی ۔

مینارۂ ولایت و باب صداقت کبھی بھی شکست نہیں کھا سکتی ، منافق امام زمان عج کو قتل کر دینا چاھتے تھے لیکن وہ شمع انجمن بجھے تو کیوں بجھے جو قلب کائنات ہو ، جو زینت محفل ھستی ہو ، جو سبب بقاء عالمین ہو ، ھزار دشمنوں کی کوششوں کے باوجود خدا نے امام عج کو عمر طولانی عطا فرمائی اور امام کا سایہ عالم ھستی پر بر قرار رکھا ہے ۔

اندھیروں کویہی توکھل رہاہے

دیا میرا ھوا میں جل رہا ہے

لوگ یھی چاہتے تھے کہ گلشن ابوطالب کا آخری گلاب ھی گل ہو جاۓ لیکن جسے خدا جاوداں رکھنا چاہے اسے کون ختم کر سکتاہے ۔

فانوس بن کے جس کی حفاظت ھوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

جو خود بقاء کے لۓ خلق کیۓ گیۓ ہیں ان کو فناء کیسی ؟ حیات تو انھیں کے در کے ٹھوکر ہے ، یہ جو چاہیں تو سارے عالم کو مات دے دیں یہ جو چاہیں تو سای کائنات کو حیات بخش دیں ۔

خدا نے اس شمع ھدایت کو وہ روشنائی و جاودانی بخشی ہے جس کی شعاعیں آج تک دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور تا ابد باقی رہیں گی ، پہلے محمدۖ نے جب طلوع اسلام کے وقت تبلیغ دین کی تھی تو عجم و عرب میں اسلام پھیلا تھا اور جب آخری محمد علیہ السلام اسلام کے لۓ قیام کرے گے تو مشرق سے مغرب تک نعرۂ تکبیر بلند ہو گی اور ھر فرد مسلمان ہو گا ، خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ھمارے زمانہ کے صاحب کو ھم سے ملا دے ۔

 

محمد باسط  ولد  محمد ھاشم

بتاریخ 5 / جمادی الثانی / 1435 ھ

مشھد الرضا علیہ السلام

منابع و مآخذ

(1)قرآن کریم۔

(2)غیبۃ النعمانی۔

(3)عروس فکر ، تصنیف باقر آمانت خانی۔

(4)کمال الدین۔

(5)جلوھای رحمانی۔

(6)منتخب الآثار  فی الامام الثانی عشر ع ، صافی گلپائگانی ،طبع سوم ، طہران مکتب الصدر ۔