مسلمانوں کے زوال و پسماندگی کے اسباب  

کوتاھئ عمل کے اسباب :

دور دور کی کبھی نہ ہونے والی امّیدیں :

خدا کی جگہ صرف قلب انسان میں ہے لیکن ھم لوگ کیونکہ کہ دل میں ھزار خواھشیں رکھتے ہیں اس لۓ خدا کو صرف تصورات و علم و عرفانی بحثوں میں جگہ دیتے ہیں ،در حالیکہ اللہ کی جگہ ھماری زندگیوں میں عمل و ایمان میں تھی نہ کہ خیالات و ذھنیات میں ۔

ما کذب الفواد ما راۂ

روح ایمان مدھم پڑ گئی ہے اور فکریں تیز ہو گئ ہیں :

 

موقع و محلّ و اشخاص سے شکوہ :

کامیاب لوگ کبھی بھی کسی بھی چیز کا شکوہ نہیں کرتے انھیں اگر کسی سے شکوہ ہوتاہے تو وہ خود انھیں سے ہوتاہے اور اپنے کم عملی یا بے عملی پر گریان ہوتے ہیں دوسرے کی کم کاری کا شکوہ نہیں کرتے ۔

ھم لوگ ظاھر کو باطن کے خلاف تصور کرتے ہیں :

یہ عنوان پوری ایک کتاب ہے کہ آدمی کس طرح اس گمراہ اور منحرف فکر میں پڑتاہے اور کس طرح اس فکر سے نجات پاتاہے کہ ھم لوگ عجیب و غریب قوۃ فکر کے زنجیروں میں جکڑ جاتے ہیں ، اور جس فکر و خیال و ذھنیت میں ھم گرفتار ہوتے ہیں اسی میں اشتباہات کو زیادہ کرتے جاتے ہیں اور آخر اپنی فکر کو اپنے سے جدا کرو ، یہ بھی ممکن کہاں

دوسروں کی شکایت رکھنے والے کبھی بھی موفق نہیں ہوتے :

 

 بے اعتمادی نفس :

ھم لوگوں کو اپنے آپ پر بھروسہ کرنا چاہیۓ لیکن صرف اور صرف اپنے عمل و استعداد کو معیار ٹہراتے ہوۓ ،نہ کہ خیالات و ھوسیات کو مدّنظر رکھتے ہوۓ ، بالفاظ دیگر بالفعل جو ہے اس پر بھروسہ کرنا چاہیۓ لیکن بالقوّہ جو ہو سکتاہے اس پر تکیہ نہیں کرنا چاہیۓ ۔

 کھوۓ ہوۓ کی بازیابی اور موجودہ نقائص سے تصفیہ :

آپسی بھائی چارہ :

میں یہ مانتا ہوں کہ سارے سنّی شیعہ بوھرے زیدی اسمائیلی جعفری ، حنفی شافعی مالکی حنفی جنبلی ، وھّابی سلفی اھلحدیث ، بریلوی دیوبندی اور جتنے بھی فرقیں ہیں ان سب میں اختلاف تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بھائی چارہ نہ رکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ چاہے جتنا اختلاف ہو ایک دوسرے سے مل کر رھنے میں تو کوئی ھرج نہیں ہے حتّی کہ غیر مسلمانوں سے بھی خوش اخلاقی کا برتاو کرنے میں کونسی رکاوٹ ہے ؟ کم از کم ھر کسی سے خوشمزاجی و نیک معاشرت کا تعلق رکھنا چاہیۓ ۔

اختلافی مسائل کا صرف علمی نہیں بلکہ اخلاقی حلّ تلاش کریں :

آج جو ھم ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں اور ایک دوسرے کے اصول پر معترض ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو بے دین و منحرف ثابت کرتے ہیں تو اس کا حلّ دو راستہ ہیں ؛ ایک یہ کہ ھم سارے مختلف الاعتقاد ، متعدد المذاھب اپنی وحدت کا علمی و تحقیقی طور پر مناظرہ کی صورت میں تشتّت و تفرقہ کو مٹاۓ ۔ دوسرا یہ کہ سارے علمی و اصولی اختلاف کے باوجود باھمی ھمدردی و ھمدلی سے جیۓ ، ایک دوسرے کو سارے معاشرتی مسائل میں تحمل کرلیں ، اختلافی مشکلات میں صبر سے کام لیں اور امن و اخلاق کا دامن ھاتھ سے جانے نہ دیں ۔

کیونکہ اصل میں ھمارے ایک دوسرے کو لعن و طعن کرنا ، اصولی و مذھبی رسوم کی گوناگونی کی بنا پر کم ہے ایک دوسرے سے نفرت کے سبب زیادہ ہے کیونکہ اگر کوئی نماز پڑھتے وقت ھاتھ کھولتاہے یا کوئی ھاتھ باندھتاہے یا اگر کوئی زکوۃکو واجب مانتاہے یا کوئی مستحبّ مانتاہے یا کوئی کچھ مانتاہے یا نہیں مانتا تو اس کا سبب اختلاف مسائل نہیں بلکہ مسائل کے مختلف ہونے کے بعد جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کیا جاتا اور چھوٹے چھوٹے جزئی باتوں کو جو تمام عالم انسانیت میں پائی جاتی ہیں جدّی لیتے ہیں اور اختلاف کا سبب بناتے ہیں جو کہ اھمیت دینے کے قابل نہیں ہوتیں اس لۓ ھمیشہ جزئیاتی مسائل کو وحدت کے رنگ سے مٹا دینا چاہیۓ ۔