شاہ خراسان

وبلاگ اطلاع رسانی اخبار و احوال جہاں اسلام ، تبلیغ معارف شیعی و ارشادات مراجع عظام ۔

۷ مطلب در اسفند ۱۳۹۴ ثبت شده است

epapar

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

فرزندان سعادت

{ فرزندان سعادت }

این قوم در حال حاضر در جریان پیشرفتی و ارتقاء است و انشاء اللہ در زمان آئندہ خیلی ثمرات و نتائج شگفت انگیز خواھد آورد ۔  

من لفظ انقلاب را خیلی می شنیدہ بودم و در کتب و مجلّات و اخبار خیلی خواندہ بودم  ولی معنئ حقیقئ آن را در ایرانیان دیدم ، اینھا نہ فقط در نعرہ بازی و در جوش و خروش انقلاب آوردند و فقط از حیث ملک آزاد شدند بلکہ اینھا در زندگئ خودشان و در کردار و در کلّ چیزھای کہ مربوط بہ خیریت و عافیت و سعادت ھست ، انقلاب آوردند و اونھای کہ در ایران زندگی می کنند یا برای مسافرت بہ ایران آمدند خوب می دانند کہ الآن ھم در ایران انقلاب برپا است و ملک ایران و زندگی ایرانیان لحظہ بہ لحظہ طرف پیشرفتی گامزن است ۔

سبب انقلاب خارجی و بیرونی نیست بلکہ درونی است زیرا کہ در ایران بیشمار مردم زندگی می کنند ولی اخلاق و کردار و طبیعت و طرز معاشرت ایرانیان نسبت بہ ھمۂ اقوام جداگانہ است ، اینھا ھستند فرزندان خوشبختی و سعادت ۔

اون خیالات و ارادہ ھای مردمی کہ از ھزاران قبل از سالھا خواھش کردہ بودند و زحمت و کوشش ھزاران دانشوران و رھنمایانی کہ یک تھذیب و تمّدن خوش و بہتر خواستہ بودند الآن در ایران تشکیل شد ۔  

ایران ، سر زمین علم و ایمان : در ایران آثار قدیم زیاد وجود نہ دارہ بلکہ نسبت بہ کشور ھندوستان کان لم یکن است ، ولی یک کمی جاھای خاص است مثل تخت جمشید و فنّ تعمیر ایرانیان ۔۔۔۔۔۔۔۔ یک سرمایہ ی بی نظیر و سودمندی کہ از ایرانیان گذشتگان برای آیندگان باقی ماندہ کتب و تحریرات است ۔

من این نمی گویم کہ واقعا ذات و قوم ایرانی خوب است و خصائص قومئ اینھا خوبہ ، ولی این است کہ انقلاب و شھادات و روحانیت و رحم دلئ ، قوم ایرانی را سبب شدہ کہ امروز ایرانیان تقریبا از ھمۂ اقوام عالم برترند ۔

و یک سبب اساسی کہ در ایرانیاں بیشتر تاثیر گذار است آن محبت و عشق باھلبیت رسالت است ، و این فقط یک سبب اساسی و براۓ پیشرفت قوم ایرانی مؤثّر نیست ، بلکہ امتیاز و افتخار ایرانیات است کہ در کلّ جہاں قوم ایرانی مخاطب پیام خدا و رسول ۖ و مخاطب کلام امام علی علیہ اسلام و ائمّۂ معصومین شدہ اند و براۓ نشر معارف اسلام و اھلبیت نبوّت یک گام مھمی در تاریخ اسلام دارند ۔

این طوری ایرانیان براۓ اسلام و مسلمانان جہاں زینت شدند کہ اکثر معارف و افکار اسلامی مبنی اند بر افکار و فلسفۂ ایرانی ۔

 انقلاب اسلامئ ایران :

این ھمۂ جملاتی کہ گفتم ، این مخصوص بقوم ایرانی نیست ، آن خصائص و عادات کہ در تاریخ عالم قوم ایرانی دارہ چیز دیگر است ، این جملات و کلماتی کہ من می زنم مال قوم ایرانی کہ الآن در زیر ولایت فقیہ زندگی می کند ، اینھاست ، مراد من از سعادت ، سعادت ولایت و فقاھت و انقلاب و شھادت است ، و فرزندان ھمان مردم اند کہ باعث پیروزئ انقلاب اسلامئ شدہ اند ۔

 انقلاب ایران فقط یک جنگ آزادی نہ بود بلکہ صداۓ اسلام بود در برابر کفر و نفاق ، این یک پیروزئ و کامیابئ مردم مسلمانان جہاں بود ، انقلاب ایران در حقیقت یک ھمّت و ارادۂ ھمۂ مؤمنان و شیعیان جہاں است ،

انقلاب یعنی صداۓ خدا و پیامبر ۖ

 انقلاب یعنی منھاج شریعت و طریق اسلام ۔

انقلاب یعنی خون ضربت امام علی علیہ السلام ، خون گلوۓ امام حسین علیہ السلام ۔

انقلاب یعنی اجراء قوانین فقہ امام جعفر صادق علیہ السلام ۔

انقلاب یعنی نشر علوم و معارف امام محمد باقر علیہ السلام ۔

انقلاب یعنی صداۓ ھمۂ مظلومان جہاں ۔

انقلاب یعنی کلمۂ حقّ و ثابت ۔

انقلاب یعنی صدای حقیقت و صداقت و شھادت و ولایت ۔  

 

 

خواجه از خون رگ مزدور سازد لعل ناب

از جفای دهخدایان کشت دهقانان خراب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

شیخ شهر از رشته تسبیح صد مؤمن بدام

کافران ساده دل را برهمن زنار تاب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

میر و سلطان نرد باز و کعبتین شان دغل

جان محکومان ز تن بردند محکومان بخواب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

واعظ اندر مسجد و فرزند او در مدرسه

آن به پیری کودکی این پیر در عهد شباب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

ای مسلمانان فغان از فتنه های علم و فن

اهرمن اندر جهان ارزان و یزدان دیریاب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

شوخی باطل نگر اندر کمین حق نشست

شپر از کوری شبیخونی زند بر آفتاب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

در کلیسا ابن مریم را بدار آویختند

مصطفی از کعبه هجرت کرده با ام الکتاب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

من درون شیشه های عصر حاضر دیده ام

آنچنان زهری که از وی مار ها در پیچ و تاب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

با ضعیفان گاه نیروی پلنگان می دهند

شعله ئی شاید برون آید ز فانوس حباب

انقلاب!

انقلاب ای انقلاب

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
چھل حدیث

چھل حدیث

( چھل حدیث 1 )

الحمد للہ علی ما انعم والھم،والصلوۃ والسلام علی نبیّ الاکرم،وعلی آلہ المعصومین حجج اللہ امّا بعد فقد قال رسولۖ الثقلین:مَنْ‏ حَفِظَ عَلَى أُمَّتِی أَرْبَعِینَ حَدِیثاًیَنْتَفِعُونَ بِهَا بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَقِیهاً عَالِماً.

مختلف الفاظ اورکچھ کمی و زیادتئ عبارت کے ساتھ یہ حدیث ائمّہ علیہم السلام نے نبی کریمۖ سے نقل کیا ہے کہ جو بھی میری امت میں سے چالیس احادیث کو یاد کرے کہ جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں تو روز قیامت خدا اسے فقیہ و عالم اٹھاۓ گا۔

کسی روایت میں(( یحتاج الیہ من امر دینہ)) کی قید بھی ہے، کسی میں حلال وحرام سے تصریح کی گئی ہے،کسی میں سنّۃ سے تعبیر کیا گیا ہے اور کسی روایت میں پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چالیس خصائل گناۓ بھی ہیں،لیکن علماء کا یہ شعار رہاہے کہ تبلیغ سنت و علوم نبوی کی خاطر چالیس احادیث انتخاب کر تے ہیں اور اس کے ضمن میں فضائل ومناقب،نصائح ومواعظ اورھر وہ موضوع کہ جس کے متعلق تحریر کا قصد رکھتے ہیں ذکر کر تے ہیں۔

اگر چہ اس حدیث کو ضعیف بھی قرار دیا گیا ہے لیکن کیونکہ فضائل اعمال میں ‌ضعیف حدیث بھی قابل قبول ہے اس لۓ اس حدیث پر عمل کیا جاتاہے اور اسی حدیث نویسی کے طریقہ کو لے کر علماء و مصنّفین نے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور اسی کا سھارا لیتے ہوۓ بہترین موضوعات پر کتابیں لکھی گئی ہیں ۔

اس حدیث میں ھزار طرح کے شوشہ نکالے گیۓ ہیں لیکن اصل مراد ظاھر ہے کہ جو بھی چالیس احادیث کو یاد کرے اور اسے لوگوں تک پہنچاۓ جو ان کی منفعت و مصلحت میں ہو تو اس تبلیغ کی جزا یہ دی جاۓ گی کہ روز قیامت فقیہ و عالم اٹھایا جاۓ گا ۔ اربعین ھاشمیہ میں بانوی ایرانی ک یہ عبارت ہے : انّ المراد من جمیعھا حفظھا بحیث یکون محرّکا للعمل بھا مع خلوص النیۃ ۔ ( اربعین ھاشمیہ ، ص 6 )

اس طرح کی تالیفات کا نام تو چھل حدیث ھی ہو تاہے لیکن اس کے ضمن میں بیشمار احادیث بھی ذکر کۓ جاتے ہیں۔

لیکن اکثروبیشتر متقدّمیں میں چھل حدیث کسی ایک موضوع کے تحت احادیث کی جمع آوری اوران کے مشکل الفاظ کی شرح میں ہیں لیکن متوسّطین میں اکثر "اربعین" فضائل ومناقب کے لۓ منتخب کی گئی اورمتاخّرین میں اکثر کتب اربعین ، عارفانہ وسالکانہ انداز میں لکھی گئی ہیں۔

بقول استاد کاظم مدیر شانہ چی کے سب سے پہلے جس نے اربعین کے نام سے کتاب تالیف کی تھی وہ دوھمزمان اشخاص ہیں،ابوالحسن طوسی،محمد بن اسلم بن سالم کندی متوفی 242 ھ کہ یہ خراسان کے ثقات محدّثین میں سے ہیں۔اور دوسرے ابوالحسن طوسی،مؤید بن محمد بن علی قرشی حافظ،متوفی 242 ھ کہ یہ بھی ثقات محدّثین میں سے تھے۔ (19)

بعض نے اربعین کی بھی اربعین لکھی ہیں جیسے کہ مفسر ابوالفتوح کے جدّ،حافظ ابو سعید محمد بن احمد بن الحسین نیشاپوری کی یہ کتاب [الاربعین عن الاربعین فی فضائل امیرالمؤمنین]  یا منتجب الدین علی بن عبیداللہ بن الحسن بن الحسین بن بابویہ،صاحب فھرست مکمّل کی یہ تالیف [الاربین عن الاربعین عن الاربعین]۔

اسلام میں یہ چالیس کی عدد بہت معتبر جانی گئی ہے بعثت پیامبرۖ چالیس سال میں ہوئی،جو چالیس دن تک اپنے آپ کو اللہ کے لۓ خالص کر لے اللہ اس کی زبان پر حکمت کے چشمہ جاری کرتاہے ، مرحوم و شھداء کی یاد میں چالیس روز بعد چھلم منایاجاتاہے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک شخص نے صرف اربعینات کے نام سے ایک منفرد کتاب تالیف بھی کی ہے جو آستان قدس رضوی سے شائع ہوئی ہے ۔

چھل حدیث نویسی کو علماء اعلام و حکماء اسلام نے اس قدر شھرت دی کہ یہ ایک فنّ اور مھارت کی حیثیت سے بھی لکھی جانے لگی ۔ بعض ماھر حضرات نے رسول خدا ۖ  کی چالیس احادیث صرف علی علیہ السلام ھی کی سند معتبر سے نقل کیۓ ہیں جیسے اربعین ولی اللھی ، بعض نے چھل حدیث کو چھل معتبر شیوخ و روات سے استخراج کیۓ ہیں ۔ جیسے الأربعون حدیثا عن أربعین شیخا من أربعین صحابیا فی فضائل الإمام أمیر المؤمنین علیه السلام ( منتجب الدین ، علی ابن عبید اللہ ابن بابویہ الرازی) ۔ گویا ک یہ سنّت پیامبر ۖ ایک فنّ و فرھنگ کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

فلسفہ غیبت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                             ( فلسفۂ غیبت )                            

کی رفتۂای زدل کہ تمنّا کنم ترا

کی بودۂای نہفتہ کہ پیدا کنم ترا

اس شعر سے آغاز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غیبت تو ھماری ہے پردہ تو ھماری آنکھوں پر پڑا ہے، غیبت میں رکاوٹ تو ھم خود ہیں ،  وہ تو ھر جا ہیں اور ھر وقت ہیں انھیں غیبت کہاں؟ چشم بینا میں انھیں دیکھنے کے لے بصیرت چاہیۓ ۔

اس دل نے خاکسار دنیا سے کیا حاصل کیا ہے سواۓ غم و اندوہ کے جس میں امام عج سے قربت و ملاقات کا اشتیاق نہ ہو ، وہ آنکھیں کوئی لذّت و سعادت نہیں پائی جس نے امام عج کی فرقت میں اشک مودّت نہ بہائی ہوں ۔ جینا اسی دل کا ہے جس میں امام عج کی محبت سمائی ہو ، باحیات وہ دل ہے جس میں امام عج سے دوری و غیبت کا غم بھرا ہو ۔

فلسفۂ غیبت یعنی علّت و سبب غیبت کہ امام زمان عجل اللہ تعالے فرج الشریف کیوں پردۂ غیب میں ہیں ؟ وہ اسباب و عوامل کیا ہیں جن کے سبب امام نے غیبت اختیار کی ہے یا خدا نے امام علیہ السلام  کو زمانہ کی نظروں سے کیوں چھپا رکھا ہے ۔

جب قتل و ظلم و فساد کا خوف ہوتاہے تو خداوند متعال اپنے نمائندہ و جانشین کو لوگوں کی نگاھوں سے دور کر دیتاہے اور امامت جو لطف پروردگار ہے اس سے اپنے بندوں کو محروم کردیتاہے اور اس کے پسندیدہ مخلوق کو شرّ الناس سے محفوظ رھنے کے لۓ غیبت اختیار کرنی پڑتی ہے ، تاریخ میں بہت ساری غیبت صغری و کبری ہوئی ہیں اور بہت سارے انبیاء خدا کو غیبت اختیار کرنی پڑی ہیں جیسے کہ جناب ابرھیم علیہ السلام  کی ولادت مخفی طور پر ہوئی اور کئی سال تک غیبت میں رہے اوربعد میں ظھور کیا ، پس اسی طرح انبیاء و اولیاء خدا نے بھی ایک مدّت کے لۓ غیبت اختیار کی ہے حتّی کہ جناب آدم علیہ السلام نے بھی غیبت اختیار کی تھی جب آپ کو خلق کیا گیا تھا ۔

فلسفۂ غیبت کے جملہ عوارض میں سے کچھ یہ ہیں :

·        امام عج کے قتل ہو جانے کا خوف ۔

·        زمانہ کی شرّانگیزیاں ۔

·        ناموافق حالات و مقتضاۓ مشیت پروردگار ۔

·        تاکہ ھر باطل پرست حقّ کا راستہ چھوڑ دے اور صرف مؤقنین و مؤمنین دائرۂ ایمان میں بچ جائیں۔

·        تاکہ جب امام عج ظھور کریں تو کسی کی بھی بیعت ان کے ذمّہ نہ رہے ۔

·        غیب و سرّ الھی ۔

·        تاکہ حجّت خدا تا قیامت باقی رہے ۔

·        تاکہ اس امّت میں وہ سارے واقعات رونما ہو جائیں جو گذشتہ امّتوں میں ہوئی تھی ۔

·        تاکہ ھم اپنے آپ کی اصلاح کر لیں ، زمانۂ غیبت کبری ھماری خودسازی کی مھلت ہے ۔

·        ایک ایسی حکمت  فلسفۂ غیبت میں رکھی گیئی ہے جو ذکر نہیں کی جا سکتی تھی ۔

ان کے علاوہ اور بہت سارے عوامل ہیں جن کے سبب حجّت کبری و بالغۂ خدا پردۂ غیب میں ہے ، حرف مختصر یہ کہ امام عج مشیت خدا کے تحت پردۂ غیب میں ہیں جب وہ گھڑی آئے گی تو ایک ھی رات میں خدا امام عج کے ظھور کا سامان مھیّا کر دے گا ۔

کتنی افسوس کی بات ہے کہ ھم جیسے عاصی بندوں کے لۓ روۓ ارض پر جاۓ پناہ ہے لیکن جن کے صدقہ میں کائنات خلق کی گئی خود انھیں دنیا میں جینے کی مصلحت و امنیت نہیں ہے ۔ آیات قرآن میں جو ذکر ہوا ہے اس کی بھی تکمیل نہیں ہوئی جب خدا کی آخری حجّت ، امام قائم عج ظھور کریں گے تو ان کے دم سے قرآن بھی پورا ہو گا اور اسلام بھی پورا ہو گا ۔  

عقل اس کا انکار نہیں کرتی کہ کوئی چیز ہو اور آنکھوں سے اوجھل ہو ، بظاھر نظر نہ آتی ہو ۔ کیونکہ ایسے بیشمار چیزیں ہیں جو آنکھوں کو نظر تو نہیں آتی لیکن ھر چیز میں اصل وھی ہو تی ہیں ، ھمارا وجدان گواھی دیتاہے کہ ان چیزوں کا بھی وجود ہے جن کو ھم دیکھ نہیں سکتے ، اور ایسی چیزیں اکثر بصارت سے دیکھی نہیں جاتی بلکہ بصیرت سے جانی جاتی ہیں ،بس اسی طرح سے امام زمانہ عج بھی ہیں ، خیانت و ھوس و ضلالت بھری آنکھیں تو نہیں دیکھ سکتی لیکن ایمان سے لبریز دل انھیں محسوس کرتاہے ۔

دیکھا نہیں ہےپھول کی نکہت کو آنکھ سے     دیکھا نہیں ہےعشق کی لذّت کوآنکھ سے

دیکھا نہیں ھوا کی  لطافت  کو آنکھ  سے     دیکھا نہیں ہے اپنی بصارت کو آنکھ  سے

غیبت کاان کی اسکی ہےقدرت پہ انحصار

ان کے وجود کا نہیں رویت پہ انحصار

غیبت کے ہیں حجاب میں آتے نہیں نظر     انساں میں عقل،دل میں وفا،سنگ میں شرر

سینہ میں علم،گل میں مہک،آنکھ میں نظر     نکہت گلوں میں،عطر میں بو،حسن میں اثر

ان کے ظھور شکل کی حاجت نہیں کوئی

پردہ میں وہ رہیں تو قباحت نہیں کوئی

پردہ برائیوں کے خوف سے بچنے کے لۓ ڈالا جاتاہے ،پردہ ان چیزوں پر ڈالا جاتاہے جو لائق تعظیم وقابل احترام ہوتی ہیں اب چاہے یہ عام معنوں میں ہو یا غیبت امام عج کے لۓ ہو یا ذات خدا کے لۓ ہو ، ھر وہ چیز جو خاص الخاص ہو تی ہے اس کے لۓ حجاب زینت بن جاتا ہے ۔

پردہ صاحب پردہ کی شخصیت کو چھپاتا نہیں بلکہ اور اجاگر کر دیتاہے جس چیز پر پردہ پڑجاتاہے اس کی عظمت بڑھ جاتی ہے ۔

 پردہ اس وقت تک پردہ ہے جب تک شۓ محجوب معلوم نہ ہو اور جن کے لۓ صاحب حجاب آشکار ہو ان کے لۓ غیبت بھی حضور اور پوشیدہ بھی ظاھر کا حکم رکھتا ہے ۔

میان عاشق و معشوق ھیچ حائل نیست

پردہ اسی وقت پردہ ہے جب تک ھماری آنکھوں پر پڑا ہو اس کے لۓ وہ چھپا ھی کہاں ہے جو صاحب پردہ کو جانتاہو ۔

پردہ تو زمانہ کی نگاھوں پہ پڑا ہے

اور کچھ پردہ تو پڑتے ھی لطف کے ہیں یعنی جب تک وہ پردہ پڑا ہے تب تک مخفی شۓ سے لطف اندوز و محظوظ ہوئیے لیکن جیسے ھی وہ پردہ ھٹ جاۓ گا اس وقت صرف تکلیفی صورت باقی رہ جاۓ گی ۔

محرم نہیں ہے تو ھی نواھاے راز کا

ورنہ یہاں جو پردہ ہے پردہ ہے ساز کا

شاید امام زمانہ کا پردہ بھی لطف کا ہے کہ جب یہ اٹھ جاۓ گا تو سارے اسرار فاش ہو جاۓ گے اور امام کا پردۂ غیب سے آنا ساری کائنات کے چھپے چہروں سے پردہ اٹھانا ہے ۔ جب تک پردہ پڑا ہے تب تک امام کے تصوّروجود سے لطف اٹھائیے لیکن جس دن یہ پردہ اٹھ جاۓ گا اس دن کائنات کے سارے پردہ اٹھ جاۓ گے پھر صرف تکلیفی شکل باقی رہ جاۓ گی ۔ فلسفۂ غیبت یہ ہے کہ ھم امام عج کے غیبت کے دور ھی میں اپنے ایمان کو استوار اور عمل کی اصلاح کر لیں اور اس مھلت غنیمت کو ہاتھ سے جانے نہ دیں ، آج قول و لطف و ارشاد معصوم ہے ، کل تلوار و قتل و انتقام ہو گا ۔ اور وَ قاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّةً کَما یُقاتِلُونَکُمْ کَافَّة  کی تعبیری صورت ہو گی ۔

مینارۂ ولایت و باب صداقت کبھی بھی شکست نہیں کھا سکتی ، منافق امام زمان عج کو قتل کر دینا چاھتے تھے لیکن وہ شمع انجمن بجھے تو کیوں بجھے جو قلب کائنات ہو ، جو زینت محفل ھستی ہو ، جو سبب بقاء عالمین ہو ، ھزار دشمنوں کی کوششوں کے باوجود خدا نے امام عج کو عمر طولانی عطا فرمائی اور امام کا سایہ عالم ھستی پر بر قرار رکھا ہے ۔

اندھیروں کویہی توکھل رہاہے

دیا میرا ھوا میں جل رہا ہے

لوگ یھی چاہتے تھے کہ گلشن ابوطالب کا آخری گلاب ھی گل ہو جاۓ لیکن جسے خدا جاوداں رکھنا چاہے اسے کون ختم کر سکتاہے ۔

فانوس بن کے جس کی حفاظت ھوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

جو خود بقاء کے لۓ خلق کیۓ گیۓ ہیں ان کو فناء کیسی ؟ حیات تو انھیں کے در کے ٹھوکر ہے ، یہ جو چاہیں تو سارے عالم کو مات دے دیں یہ جو چاہیں تو سای کائنات کو حیات بخش دیں ۔

خدا نے اس شمع ھدایت کو وہ روشنائی و جاودانی بخشی ہے جس کی شعاعیں آج تک دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور تا ابد باقی رہیں گی ، پہلے محمدۖ نے جب طلوع اسلام کے وقت تبلیغ دین کی تھی تو عجم و عرب میں اسلام پھیلا تھا اور جب آخری محمد علیہ السلام اسلام کے لۓ قیام کرے گے تو مشرق سے مغرب تک نعرۂ تکبیر بلند ہو گی اور ھر فرد مسلمان ہو گا ، خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ھمارے زمانہ کے صاحب کو ھم سے ملا دے ۔

 

محمد باسط  ولد  محمد ھاشم

بتاریخ 5 / جمادی الثانی / 1435 ھ

مشھد الرضا علیہ السلام

منابع و مآخذ

(1)قرآن کریم۔

(2)غیبۃ النعمانی۔

(3)عروس فکر ، تصنیف باقر آمانت خانی۔

(4)کمال الدین۔

(5)جلوھای رحمانی۔

(6)منتخب الآثار  فی الامام الثانی عشر ع ، صافی گلپائگانی ،طبع سوم ، طہران مکتب الصدر ۔

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

شیعہ فاسق

JLK

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

امام خمینی اور وحدت اسلامی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

( امام خمینی اور وحدت اسلامی )

یہ مسئلہ کافی دقیق ہو نے کے علاوہ ضرورت وقت بھی ہے کہ ھم وحدت اسلامی کے موضوع پر قلم و زبان کو اٹھائیں ، عوام اتّحاد کے نام سے متنفّر ہو جاتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ اتّحاد یعنی سارے معاملات میں یک سوئی ہوجاۓ بغیر اس تفریق کے کہ حقّ و باطل بھی ہے یا نہیں اور صحیح و غلط کا معیار بس وحدت ہو اور کوئی اختلاف نظر نہ ہو اور کھن افکار اور متعصّب حضرات اتّحاد کو محال سمجھتے ہیں ، ان کی نظر میں اسلام یعنی چند جزئی افکار و رسوم میں محدود ہے ۔

اب ایسے عالم میں اتّحاد کرے تو کون کرے اور کس سے کرے ؟؟ عوام اور ظاھری ملّا حضرات دونوں ذھنی اعتقاد پر مجتھد ہیں ، مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتاہے جب ھم اس اتّحاد کو اھل تسنّن سے جوڑتے ہیں ، کیونکہ دائرۂ اسلام میں رہتے ہوئی بھی ھمارے سنّی شیعہ بھائی ایک دوسرے کو تخالف کی نہیں بلکہ تنافی و تضادّ کی نسبت سمجھتے ہیں – اور جزئی اور ایسی بے بنیاد باتیں جس کو شاید ایک مادّہ پرست بھی کوئی اھمیت نہ دیتاہو ، آپس میں فحش و کفر کی حدّ تک پہونچا دیتے ہیں ۔

اس میں کچھ تقصیر تو ھمارے ذاکروں اور ملّاؤں کی ہے جو اپنے غیر عاقلانہ و بے شعورانہ کارناموں کی وجہ سے وحدت اسلامی کے مخالف ہیں ، اور کچھ نیک عوام و علماء کی تقصیر و کوتاھی ہے جو حالات زمانہ سے جنبش تک کھانا نہیں چاہتے – بس ایسے ھی معمولی عوارض کی بنا پر یہ بدیھی و واضح مسئلہ صدیوں سے پیچیدہ و لاینحلّ سمجھا جا رہاہے ۔

اور ابھی بھی یہ مسئلہ اس وقت تک کاملا حلّ نہیں ہو گا جب تک ھم ایک عاقلانہ و باشعورانہ قدم نہیں اٹھاتے ، اور اپنے آپ کو تک تک فرد قوم اسے اپنی شرعی و وقتی ضرورت نہیں سمجھتے – کیونکہ وحدت ایک ایسا مسئلہ ہے جو ھزاروں سیکڑوں افراد کے متّحد ہونے کے باوجود ایک نادانوں کی احمقانہ چال کی وجہ سے ٹوٹ جاتاہے ، وحدت اسلامی کی خاطر ھر قوم و ھر نظریہ کے ھر شخص کو ، چاہے بزرگ ہو یا بچہ ، امیر ہو یا غریب ، عالم ہو یا جاھل ۔۔۔ ھر مسلک و مذھب کے تحت افراد کو اس بات پر متّحد ہوجانا چاہیۓ کہ جب تک ھم دائرۂ اسلام میں ہیں تب تک کوئی بھی ایک دوسرے کو کافر کہنے کا یا ایک دوسرے کی جان و مال و عزّت و ناموس پر حرف اٹھانے کا حقّدار نہیں ہے ، اور ھر کلمۂ لاالہ الاّ اللہ پڑھنے والے کی حمایت و خوش رفتاری اس پر لازمی ہے ۔

اقبال نے کیا خوب کہا تھا

آدمیت احترام آدمی ، با خبر شو از مقام آدمی

چاہے کوئی مانے یا نہ مانے میں یہ مانتاہوں کہ آج ھر شخص کوئی نا کوئی خطا پر ہے چاہے جس جھت و جس نوعیت سے ہو ، بنیادی نہ صحیح ایک جزئی و اعتباری ھی نوعیت سے کیون نہ ہو آج ساری عالم انسانیت خطا و اشتباہ میں ہے ( الانسان مرکّب من الخطا و النسیان ) – چاہے اس کا سبب درونی و ذاتی موانع ہوں یا بیرونی و خارجی عوارض ہوں ، بھر صورت کوئی ملّت و مملکت سے تعلّق رکھنے والا شخص بھی اپنی صفائی و حقّانیت میں خالص و ثابت نہیں ہو سکتا ۔ یا اعمالی و کرداری نقائص نکلیں گے یا بنیادی و اعتقادی عیوب نکلیں گے ۔ اور سب سے پہلے وھی شخص غلط ثابت ہو گا جو دوسروں کی باسبت اپنے آپ کو ھدایت یافتہ و حقّ بجانب سمجھنے لگے ۔

دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو حقّ و سچّ کی جستجو میں نہ ہو اور اپنے آپ کو گمراہی میں رکھنا چاہتاہو ، ھر کوئی اپنے آپ پر حقیقت و واقعیت کو روشن و منکشف کرنا چاہتاہے ۔

خود ھمارے لۓ بھی لوگوں کا طریقہ معیار نہیں ہے بلکہ ھمارے لۓ وہ سیرت  نمونہ ہے جو ھمارے رہنماؤں کا طریقہ رہا ہے ، جو آداب معاشرت ھمارے پیشوایان کے نقوش و آثار ہیں ، ھم انھیں کی پیروی کریں گے جو قرآن و سنّت کا طریقہ ہے – آیا زمانۂ نبوت و متقدّمین میں مسلمان نہیں تھے جو اختلاف نظر کے باوجود ایک دوسرے میں متّجد تھے ؟ آیا کیا آج سے پہلے بھی مسلمان  مسلمان پر کفر کا فتوی لگا کر ایک دوسرے کا خون بھانا جائز سمجھتاتھا ؟ اور پھر آپس میں خون ریزی سے مسئلہ حلّ ہو جاۓ گا ؟ اور ھم گروہ مقابل کو مٹا کر حقّ پر ثابت ہو جاۓ گے ؟؟؟ ۔

یہ باتیں صرف علماء یا نادانوں کے لۓ نہیں ہے بلکہ ھر مسلمان کو غور کرنے کے لۓ ہیں ۔ کہ آج حال حاضر میں ھمارا باھمی معاشرت و تعلّق کیسا ہونا چاہیۓ ۔ ایک دوسرے سے نفرت سے اس اختلاف کو مٹایا جاۓ یا محبت سے ؟ صرف دوسروں پر صحیح و غلط کا فتوی لگائیں یا ھماری بھی کچھ ذمّداری بنتی ہے ؟ اور آیا جو آج ھم مسلمان ایک دوسرے کے تعلّقات و میل جول کا جو عام دستور قائم کر رکھے ہیں وہ شرعا مشروع بھی ہے یا نہیں ؟۔ بہت دقّت نظر و تزکیہ کی ضرورت ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جاۓ ۔

امام خمینی رح اور اسلامی وحدت :

مرد مجاھد و بندۂ مؤمن ، عارف باللہ ، سیّد روح اللہ خمینی بانئ انقلاب اسلامئ ایران ، و بت شکن کفر و عصیان ، رونق روحانیت ، عزّت و حجّت اسلام ، امام خمینی وہ ذات ہے جس نے فقاھت و عرفان و فلسفۂ و سیاست کو ایک ھی جا جمع کردیاہے ۔ اور اپنی پوری عاقلانہ و انقلابانہ استعداد سے جمہور ایران کو ذلّت سے آزادی دی ہے – اور آج کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو اسلام یا مذھب کا نام دے کر کامیاب اور باعزّت ہو سواۓ ایران کے ۔   

ایک عجیب و متحیّر کر دینے والا سانحہ  امام خمینی کا انقلاب ایران میں اتّحاد بین المسلمین ہے کہ حضرت نے ایران کو عزّت و آزادی دلانے کے ساتھ ساتھ عالم اسلامی سے ھمدردی و اتّحاد و یک جھتی کا پیغام بھی دیا ہے اور جس کا ثبوت آج بھی باقی ہے جو ھم آج ھر اسلامی خصوصا شیعی ممالک میں ماہ مبارک رمضان کے آخری روز جمعہ کو " یوم القدس " مناتے ہیں جو کہ مردم فلسطین کے طرف سے دفاع ہے اور امام راحل کی دالی ہوئی بنیاد ہے ۔   

اگر امام خمینی کے علاوہ کوئی اور بانئ انقلاب ہوتا تو ھتما دیگر مفاسد بھی وجود میں آتی لیکن سیّد نے اس طرح سے لوگوں میں انقلاب لا یا کہ نہ اسلامی وحدت توٹی اور نہ انقلاب پر کوئی حرف آسکا – ایک نیک شخص اور روحانیت کو کچھ کرنے کے لۓ نہ صرف خارجی و غیر اسلامی طاقتوں سے لڑنا پڑتاہے بلکہ درونی اور بیرونی ھر دو دشمنوں سے دفاع کرنا پڑتاہے ، اور غیر دشمنوں سے نمٹنے سے پہلے آستین کے سانپوں کو مارنا پڑتاہے اور انقلاب اسلامئ ایران نے ایک تیر سے ان دونوں دشمنوں کو مارا ہے ۔ امام نے دائرۂ اسلام ھی میں کفر کو پھونٹ پھونٹ کر مارا اور اس سادگی سے کہ وحدت اسلام میں ایک رخنہ تک نہ آسکے ۔

دنیا میں بھی بہت سے مذھبی لوگ قدم اٹھاتے ہیں لیکن وہ آگے چل کر دھشت گرد و بدنام گروہ بن جاتے ہیں کیونکہ ان کے ارادے بد ہوتے ہیں اور جہاں کہیں بھی مذھبی کوئی کارنامہ انجام پاتاہے تو اس کے نتیجہ تک پہونچنے تک اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ مذھب کے نام پر خیر ھی ہوا ہے ، یا پھر مذھب و اسلام کا نام دے کر شرّ انگیزیاں انجام دی گئی ہیں؟؟ لیکن روح اللہ خمینی نے ایک ایسا معجزنما کارنامہ انجام دیا کہ اتنی بڑی کامیابی بھی نصیب ہو گئی اور وہ بھی دائرۂ اسلام میں رہتے ہوۓ ۔

اختلاف کے حقیقی معنے :

حقیقت ایک ہے لیکن ھر کوئی اسے اپنے اپنے انداز میں سمجھتاہے اس لۓ کوئی بھی کسی دوسرے کے طریقہ کو غلط نہ کہے اور یہ ھزار باتوں کی ایک بات ہے کہ ھر قوم و ملّت بلکہ ھر فرد کے برداشت و انعکاس کا طریقہ اپنے اپنے لحاظ سے جدا جدا ہوتاہے ھر فرد کا برداشت اس کے اپنے طریقہ سے ہوتاہے۔ کسی تجربہ کار کا جملہ ہے کہ:برداشت ھر ملتی باندازۂ اوست

رسول خدا ص نے فرمایا: إِنَّ اخْتِلَافَ‏ أُمَّتِی‏ رَحْمَة)

     میری امّت کا اختلاف کرنا رحمت ہے۔

اللہ نے انسان کو خلق ھی ایسے عناصر سے کیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف وتضادّ رکھتے ہیں یعنی آب وخاک و پانی وھوا انھیں مجموعۂ عناصر کا نام ہے "انسان جس میں بیک وقت مختلف شکلیں اور حالتیں اورکارنامے انجام پاسکتے ہیں اور بیک وقت سارے عناصر مختلف کام انجام دیتے ہیں،لھذا طبیعت بشر ھی میں اختلاف ہے اس لۓ اس میں مختلف حالتیں پیدا ہوتی ہیں اور ایک ھی نوعیت کا آدمی گوناگون کارنامہ انجام دے سکتاہے۔اختلاف  طبیعت کائنات اور فطرت بشر ہے۔

اس حدیث کے متعلق جب امام صادق ع سے پوچھا گیا تو فرمایاکہ اختلاف سے مراد اختلاف وتبدیلئ وطن ہے تحصیلئ علم کے لۓ۔(1)

کائنات کی ھر شۓ میں اختلاف ہے اب اس کی زیادہ تشریح نہیں دوں گا لیکن اصل مدعّی یہ کہ اختلاف خلائق ھی علامت حیات ہے جب تک کو‏ئی شۓ حرکت واختلافی شکل میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندہ ہے جیسے ھی ساکن ہو گئی اور سکوت اختیار کرلیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ جاندار نہیں رھی بلکہ مردہ ہو چکی ہے،حرکت واختلاف زندگی کی نشانی ہے،کائنات کی ھر وہ چیز جو ایک سے چار رنگوں میں رنگی ہوئی ہے زندہ ہے والّا موت بھی تو ایک حالت ہے لھذا ایک ھی حالت پر اڑے نہ رہیں بلکہ تبدیلئ احوال وزمان کے ساتھ بدلتے رہیں یہ حیات کی نشانی ہے۔

 آّپ کو دنیا کی ھر چیز حالت اختلاف اور تبدیل کی صورت میں نظر آۓ گی کیونکہ یہ علامت حیات ہے،بس اختلاف  رحمت ہے کیونکہ حرکت میں برکت ہے اس لۓ اختلاف میں رحمت ہے۔۔۔ بشرطی کہ اختلاف حدّ فساد تک نہ پہونچ جاۓ جب تک اختلاف فساد کی حدّ تک نہ پہونچ جاۓ اختلاف  رحمت ہے لیکن اگر اختلاف فساد کی شکل اختیار کر لے تب تو وہ قتل وغارتگری سے بھی بدتر ہے۔

علماء میں دو طرح کی روش فکر ہو تی ہے ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو کتابوں کو دنیا سمجھ کر پڑھتے ہیں اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کو کتاب سمجھ کر پڑھتے ہیں ۔ ایک کی دنیا محدود ہے کتابون میں اور ایک کی کتابیں ساری خدائی ہے ۔ اس سبب سے بھی علماء میں کافی اختلاف ہوجاتاہے ، کوئی کہتا ہے کہ کتاب صحیح ہے اور کوئی کہتا ہے کہ نہیں" جو کتاب میں آ گیا وھی سب کچھ نہیں بلکہ حقییقت کی دسترس و وسعت کتابوں سے بھی بڑھ کر ہے اوریہی بھتر ہے۔

علّامہ اقبال نے کیا خوب قوم کو جگانے کی کوشش کی تھی؛

حقیقت خرابات میں کھو گئی

یہ امّت روایات میں کھو گئی(2)

افسوس جو امت کلام محمد ۖعربی سے نہ جاگ سکی وہ اقبال کے اشعار سے کیا جاگے گی؟! یہ قوم کے جاگے ہوۓ علماء انبیاء کے برابر ہیں اور جو جاگتے ہوۓ سو رہے ہیں ان سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں۔

سارے اختلافات کا سبب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اس میں دو اھمّ اجزاء رکھے ایک جرّار وتوقّف ناپذیز عقل رکھی اور ایک اطمئنان بخش قلب رکھا ، سارے اختلافات وفسادات کا باعث یہی دو سبب ہیں؛بعض لوگ عقل کو زیادہ بروۓ کار لاتے ہیں اور جو عقل میں آجۓ اسی کی تایید کرتے ہیں،اوربعض حضرات قلب اورجو انگیزۂ قلب کا باعث ہو اسے ترجیح دیتے ہیں بس قلب ونظر کے نزاع ھی کو اختلاف وفساد کہا جاتاہے۔

بس اگر تھوڑا اطمئنان اور برابری وبرادری کے جذبے سے کام لیں توکبھی اختلاف ھی نہ ہوگا، آیۃ اللہ جواد عاملی کا ایک جملہ اگریہاں ذکر کیا جاۓ تو بیجا نہ ہوگاکہ حقیقت ایک ہوتی  ہے لیکن معرفت حقیقت مختلف ہوتی ہے۔

کسی کوطورمیسّرکسی کوعرش نصیب

جدا جدا ہے تجلّی نظر نظر کے لۓ

اس حقیقت کو درک کرنے کی کوشش کریں کہ اگر ابوذر جان لیں کہ سلمان کے دل میں کیا ہے تو انہیں قتل کر دیں گے (45)۔۔۔ جب نوے اور دسوے درجہ کے مؤمنین کے لۓ یہ فرمایا گیا تو ھمارے جیسوں میں تو اختلاف نظر ہونا ایک امر متّفق ہے لھذا جزئی اور معمولی باتوں کو اعتقاد بنا کر آپس میں پھونٹ نہ ڈال لیں،ھر آگے جانے والا اپنے پیچھے رہ جانے والے کو غلط ھی سمجھتاہے لیکن اس تقدیر کو سمجھ کر چلیں ، دنیا میں ھر کسی کا درجہ الگ الگ ہے ، ہے سب ایک ھی منزل کے راہی لیکن کوئی چار قدم آگے ہوتا ہے تو کوئی چار قدم پیچھے بس ۔

نبی کریمۖ جانتے تھے کہ میری امّت پر جمود و سکوت چھا جاۓ گا اس لۓ فرمایا کہ تمارا اختلاف باعث افزایش و کشادگی بنے گا ۔ جو باطل پر ہے اس کے عمل میں کوئی فائدہ نہیں اور جو حقّ پر ہے اس کے سکوت میں کوئی فائدہ نہیں ۔

اتّحاد کی خاطر راہ چارہ :

ایک خاص نقطۂ اشتراک جو میں بیان کرنا چاہتاہوں وہ یہ کہ اتّحاد کے یہ معنی بالکل نہ کیجیۓ کہ اتّحاد یعنی ھمارا تمام معاملات میں متّحد ہوجانا – یا آپس میں نظریّات و دینی مراسم میں کوئی فرق ھی نہ ہو – یا پھر یہ کہ کوئی کیسی دستکاری کی ھی نہ جاۓ جس میں ظاھر بناوٹ و وحدت میں اختلال نہ پڑے ۔۔۔۔۔۔ بلکہ اتّحاد یعنی جو اختلاف و فساد کی ضدّ ہے ، جو قلب دشمن اسلام پر پیغ برّان ہے ، اتّحاد یعنی جو دشمنوں کی سازشوں کا قمع قلع کردے ۔

جس طرح سے مالکی ، شافعی ، حنبلی ، حنفی مختلف مسلک ہونے کے باوجود اور اختلاف نظر و فتوی و عمل کے باوجود ایک دوسرے سے مل کر ہیں اور ان میں سے کوئی کسی کو کافر نہیں کہتا ، اور کوئی کسی کا مذھب کا باطل نہیں شمارتا ، بلکہ ھر کوئی حقّ پر ہیں کتب و ا]حادیث و روایات و ہختلاف معرفت کے بنا پر سب کے مسائل جداگانہ ہیں بس اسی طرح سے شیعہ مسلک بھی حقّ ہونے کے باوجود دیگر مذاھب و نظریّات سے فرق رکھتاہے ۔ اور اختلاف نظر کی بنا پر کوئی کافر نہیں ہوجاتا – اگر اختلاف نظر سبب کفر ہوتا تو سب سے پہلے ائمّۂ اربعہ ھی میں یہ وجہ موجود ہے اور آج بھی علماء میں اختلاف نظر و فتوی پایاجاتاہے ۔

نتیجہ : 

آپ میرے بیانات و اظھار نظر سے دل تنگ نہ ہوئیے گا خصوصا شیعہ حضرات ! کیونکہ اپنے فکر و نظر اور مذھب کے مطابق بول لے نے اور دلیل پیش کر دینے سے کوئی بھی حقّ پر ثابت نہیں ہوتا بلکہ خود وقت بتاۓ گا کہ حقّ پر کون تھا ؟ اور باطل کیا ہے ؟ ! اور اس بات پر یقین رکھیۓ کہ اتحّاد کے بعد ھتما یہ بات واضح ہو جاۓ گی کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ۔ اگر ھم غلط ہیں تو اصلاح کرنے کے لۓ پیچھے نہیں ھٹیں گے اور اگر حقّ پر ہیں تو پھر کافر کیون ؟؟؟۔

میں اس بات کا یقین کرتاہوں کہ شیعہ سنّی میں جتنا اختلاف نظر پایا جاتاہے اس سے کہیں زیادہ اتّحادی اسباب پاۓ جاتے ہیں ۔

بس آج مقتضاۓ زمانہ کے لحاظ سے یہ کی جیۓ گا کہ ساری عالم انسانیت سے ھمدردی و رحم دلی و بھائی چارہ سے پیش آئیے ، اور ھر کسی کو صحیح نہ ہو تو مسلمان ہونے کی اور مسلمان نہیں ہے تو انسان ہونے کی عزّت دی جاۓ ۔

اس طرح سے ھم اپنے اعتقاد و عمل پر بھی قائم رھیں گے اور مفاسد و دھشت کا بھی خوف نہ ہو گا ، اور مھدی موعود کے آنے تک پانچوں مذاھب پانچ انگشت بن کر رھیں گے ایر چہ یہ باتیں شاید بیشتر تحقیق طلب ہوں لیکن میں پس ایک مختصر اظھار مقالہ کے تحت ، ایک عاقلانہ و طالبانہ رای کو پیش کیا ہے ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

محمّد باسط        

ولد            

محمّد ھاشم        

تاریخ 1435 ھ / رجب المرجّب / 24

     

حوالہ جات

- (1) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ الْکُوفِیُّ عَنْ أَبِی الْخَیْرِ صَالِحِ بْنِ أَبِی حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنِی أَحْمَدُ بْنُ هِلَالٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی عُمَیْرٍ عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ قَوْماً رَوَوْا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ إِنَّ اخْتِلَافَ‏ أُمَّتِی‏ رَحْمَةٌ فَقَالَ صَدَقُوا قُلْتُ إِنْ کَانَ اخْتِلَافُهُمْ رَحْمَةً فَاجْتِمَاعُهُمْ عَذَابٌ قَالَ لَیْسَ حَیْثُ ذَهَبْتَ وَ ذَهَبُوا إِنَّمَا أَرَادَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- فَلَوْ لا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِیَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَ لِیُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ‏ فَأَمَرَهُمْ أَنْ یَنْفِرُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَ یَخْتَلِفُوا إِلَیْهِ فَیَتَعَلَّمُوا ثُمَّ یَرْجِعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ فَیُعَلِّمُوهُمْ إِنَّمَا أَرَادَ اخْتِلَافَهُمْ مِنَ الْبُلْدَانِ لَا اخْتِلَافاً فِی دِینِ اللَّهِ إِنَّمَا الدِّینُ وَاحِدٌ.معانی الأخبار / النص / 157 / باب معنى قوله ع اختلاف أمتی رحمة ..... ص : 157

(42)(2)کلیات اقبال،بال جبریل،ص344۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

محدّث دکن سید علی خان المعروف بہ ابن معصوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

سید علی خان صدرالدین المدنی و الشیرازی

المعروف بہ ابن معصوم

تمھید :

ھجرت اولیاء الھی بطرف ھند :  

اللہ تعالی نے جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کو کعبہ بنانے کا حکم دیا تو وہ ایک ایسی جگہ تعیین کی جو خشک و بی آب و گیاہ تھی ، یعنی تمام تر آرایش و نمایش و آلودگیوں سے دور اور خشک صحراء میں اپنی عبادت کے لۓ ایک گھر بنانے کا حکم دیا ، اور یہ پہلا ایسا گھر ہے تاریخ میں جو خدا کے نام سے منسوب کیا گیا اس کی عبادت کے لۓ ۔

اب اس کے بعد دین خدا یہاں سے پھیلتا گیا اور سارے عالم میں وسعت پاتا گیا ، جب پیامبر اسلام ۖ اس سر زمین پر مبعوث ہوۓ ، حجاز اور اس کے اھالی و اطراف میں دین اسلام پھیلنا شروع ہوا – پھر آپ ۖ کے وفات کے بعد فتوحات اسلامیہ وسیع تر ہوتے گیۓ ، ملک روم و شام ، عراق ، ایران سے ہوتے ہوۓ ھندوستان کی سرحدوں تک پہونچ گیے اور سندھ وہ سرزمین ہے جہاں اسی دور قدیم میں اسلام آیا تھا اور خلفاء ثلاثہ کے دور کے بعد جب بادشاہوں نے ھندوستان پر حملہ کیا تو مختلف دوروں میں ھندوستان پر اسلامی حکومتیں قا‏‏ئم ہوتی رہی [ لیکن یہ اسلامی حکومتیں بس نام کی تھی جیسے کہ آگے چل کے ذکر کروں گا ]۔  

جب مسلمان ملوک غیر اسلامی ممالک پر حملہ آور ہونے لگے اور جگہ جگہ پر اسلامی پرچم لہرانے لگا تب مختلف ادوار میں متعدد جگہوں پر مسلمانوں کی حکومتیں تشکیل پانے لگی مثال کے طور پر تاتاریں کے حملے اور ان کی حکومت یا عثمانی حکومت ، یا محمود غزنوی اور  اورنگ زیب کے حملے وغیرہ اسی طرح جب جنوب ھند میں بہمنی حکومت قا‏ئم ہوئی اور قطب شاھی حکومت قا‏ئم ہوئی اور پھر دکن مین یہ سلسلہ عثمان علی خان آصف جاہ سابع تک چلتا رہا اور انھیں کے ھم زمان شیر ھند حضرت ٹیپو سلطان کی حکومت بھی سرزمین میسور [ کرناٹک ] میں قائم تھی تو ان سلطنتوں میں مسلمان بادشاہوں اور حملہ آوروں کا مقصد تو فقط مال غنیمت اور قتل و غارت تھا – جیسے کہ صدر اسلام سے چلتا آرھا تھا – لیکن مسلمان اولیاء خدا [ جو کہ اکثر و بیشتر امام علی علیہ اسلام و حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی نسل سے ہے ] جو توسیع عالم اسلام و نشر علوم اسلامی کا سبب بنے اور انھیں کے قدوم میمنت لزوم کا نتیجہ ہے کہ آج دیار ھند میں بھی مسلمانوں کی یہ کثیر تعداد پائی جاتی ہے ۔

اتنا ھی نہیں کہ سر زمین ھند میں مسلمانوں کی کثرت پائی جاتی ہے بلکہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان اسی سر زمین پر پاۓ جاتے ہیں ، [ لیکن ھند کے مختلف ٹکڑوں میں بٹ جانے سے پہلے ] ۔

 جس طرح سے بعض مسلمان مصنفوں کا نظریہ ہے [ جیسے کہ دور حاضر کے سنی عالم دین طاھر القادری نے سیف الجلی علی منکر ولایت علی علیہ سلام] کہ : خلافت روحانی پیامبرۖ کے بعد امام علی علیہ اسلام کو ملی ، بس اسی طرح سے بعد کے آنے والے دوروں میں اصل نشر دین اسلام بھی امام علی علیہ السلام کی نسل ھی سے نشو و نما پاتی رھی اور عموما سادات ھی ہیں جن کی زحمات کے باعث اصل دین دنیا کے کونوں تک پہونچا ۔ یہ دنیا آج اور تا قیامت اولیاء سادات و غیر سادات کی مرھون منّت رھے گی ۔

جنات سید علی خان کے والد کی ھندوستان آمد :

سید علی خان کے والد سید نظام الدین احمد ، سلطان ھند عبد اللہ قطب شاہ کے بلانے کے وجہ سے حیدرآباد دکن تشریف لے آۓ اور قطب شاہ نے نظام الدین سے اپنی بیٹی کی شادی کردی ۔

{ سید علی خان کی زندگی کا مختصر خاکہ }

تاریخ ولادت جمادی الاول 15 ، 1052 ھ میں مدینۂ منورہ میں ولادت ہوئی اسی لۓ مدنی کہا جاتاہے ۔

سید علی خان ماں کی طرف سے قانتۃ بنت غیاث الحکماء ابن صدر الحکماء سے سلسلۂ ملتاہے اور والد کی طرف سے تینتیس 33 سلسلہ بعد امام زین العابدین علیہ السلام سے جا ملتاہے ، حضرت نے اپنے والد کے بلوانے کے سبب اتوار کی شب ربیع الاول 1068 ھ میں حیدرآباد کا سفر کیا ۔ [ انوار الربیع ، ج 1 / ص 6 ]

سید علی خان اٹھارہ سال حیدرآباد دکن میں رہے اس عرصے میں تحصیل میں مشغول رہے خصوصا اپنے والد کے اھل مجلس علماء و ادباء سے کسب فیض کرتے رھے ۔ اور اسی دوران میں الحدا‏ئق الندیہ فی شرح الصمدیۃ تصنیف فرمائی ۔

شھر حیدرآباد کے ترک کرنے کا سبب یہ بیان کیا جاتاہے کہ جب اورنگ زیب نے ھندوستان پر قبضہ جمایا تو سید علی خان کو اپنی طرف دعوت کیا جس کی بنا پر حضوت کو حیدرآباد چھوڑنا پڑا ، اور تیرا سو 1300 گھوڑا سوار لشکر کی قیادت کے ساتھ برھان پور ھجرت کیا ، جب برھان پور پہونچے تو اورنگ زیب نے انھیں { خان } کا لقب دیا ، اور برھان پور کے اطراف اور حکومت لاھور کا ولی آپ کو مقّرر کیا ۔ [ مدنی شیرازی ، سید علی خان ، مقدمۃ المحقق ، ریاض السالکین ۔۔۔۔ ، ج1 / ص 9 طبح مؤسسۃ نشر اسلامی ، 1409 ھ ، قم ۔

[ ضمنا ایک بات ذکر کر دی جاے کہ یہ شیعہ دوسرا وہ عالم برجستہ ہے جس نے قاضی و ولی کی حیثیت سے شھر لاھور پر حکومت کی ہے ، پہلے قاضی القضات شھید ثالث نوراللہ شوستری ہیں جو اکبر بادشاہ کے دور حکومت میں تمام ھند اور خصوصا لاھور پر قاضی مقرر ہوۓ ، اور دوسرے سید علی خان ہیں ]

کچھ ھی مدّت بعد آپ وہاں سے ھجرت کر کے پھر حرمین کی زیارت کے لۓ نکلے اور پھر ایران و عراق کے زیارت گاہوں سے ہوتے ہوۓ اصفھان مین کچھ سال مستقرّ رہے ، وہاں سے ھجرت کر کے شیراز آے جہاں پر ان کے جدّ ، علاّمہ غیاث الدین منصور کا بنا ڈالا ہوا مدرسہ المنصوریہ تھا ، اخیر میں وھیں پر مقیم رھے اور ایک مفید مدرّس کی حیّثیت سے فرائض انجام دیتے رھے اور کچھ ھی عرصے بعد دار فانی سے کوچ کر گیۓ ۔

مدفن :

حرم احمد ابن موسی ابن الجعفر علیہ السلام الملقّب بہ  شاہ چراغ میں انھیں کے جدّ بزرگ وار غیاث الدین مندور کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ [ بہ حوالء بالا ، ص 11 ] ۔

تالیفات :

1.     سلافۃ العصر : گیاروی صدی ھجری کے ادباء کو ذکر کیا ہے ، پہلے اھل حرمین شریفین کے محاسن کو ذکر کیا ہے پھر اھل شام و مصر ، اھل یمن ، عجم و اھل عراق اور پھر آخری پانچوے طبقے میں اھل مغرب کو ذکر کیا ہے ۔

2.    سلوۃ الغریب و اسوۃ المغرب ۔

3.     الدرجات الرفیعۃ فی طبقات الامامیۃ من الشیعۃ : اس کتاب کو بارہ طبقات میں ذکر کیا ہے ، پہلے صحابہ پھر تابعین ، پھر محدّثین امامیہ ، علماء ، حکماء و متکلمین ، عربی علماء ، سادات صفوی ، ملوک و سلاطین ، امراء ، وزراء ، شعراء ، نساء  کو ترتیب وار ذکر کیا ہے ۔

4.     انوار الربیع فی انواع البدیع : یہ کتاب بدیعیات کی شرح ہے ، جسے بارہ شب میں تنظیم کیا ہے ۔

5.      الکلم الطیب و الغیث الصیب فی البدعیۃ الماثورۃ عن النبی و اھل البیت علیہطم السلام ۔

6.    ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید انساجدین :

حضرت کی سب سے زیادہ مشھور اور جلیل القدر کتاب ۔

7.    الحدائق الندیّۃ فی شرح الصمدیۃ ۔

8.     متوسط و صغیر ، دو صمدیہ پر شرحیں ۔

9.     موضح الرشاد فی شرح الارشاد : یہ علم نحو میں ہے ۔

10. رسالۃ فی اغلاط الفیروزآبادی فی القاموس :

11. مخلّاۃ ۔

12. الزھرۃ فی النحو ۔

13. نغمۃ الاغان فی عشرۃ الاخوان ۔

14. رسالۃ فی المسلسلۃ باالاباء : اس کتاب میں پانچ احادیث کو اپنے آباء و اجداد سے مسلسل امام تک ذکر سند کے ساتھ نقل کیۓ ہیں ۔

15. ملحقات السلافہ :

16. الطراز الاول فیما علیہ من لغۃ المعول :

17. رسالۃ سماھا نفثۃ المصدور ۔

18. کتاب محکم القریض ۔

19. دیوان شعر ۔ [ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین ؛ ج‏1 ؛ ص16 ] ۔

 

۲ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali