بسم اللہ الرحمن الرحیم 

سید علی خان صدرالدین المدنی و الشیرازی

المعروف بہ ابن معصوم

تمھید :

ھجرت اولیاء الھی بطرف ھند :  

اللہ تعالی نے جب حضرت ابراھیم علیہ السلام کو کعبہ بنانے کا حکم دیا تو وہ ایک ایسی جگہ تعیین کی جو خشک و بی آب و گیاہ تھی ، یعنی تمام تر آرایش و نمایش و آلودگیوں سے دور اور خشک صحراء میں اپنی عبادت کے لۓ ایک گھر بنانے کا حکم دیا ، اور یہ پہلا ایسا گھر ہے تاریخ میں جو خدا کے نام سے منسوب کیا گیا اس کی عبادت کے لۓ ۔

اب اس کے بعد دین خدا یہاں سے پھیلتا گیا اور سارے عالم میں وسعت پاتا گیا ، جب پیامبر اسلام ۖ اس سر زمین پر مبعوث ہوۓ ، حجاز اور اس کے اھالی و اطراف میں دین اسلام پھیلنا شروع ہوا – پھر آپ ۖ کے وفات کے بعد فتوحات اسلامیہ وسیع تر ہوتے گیۓ ، ملک روم و شام ، عراق ، ایران سے ہوتے ہوۓ ھندوستان کی سرحدوں تک پہونچ گیے اور سندھ وہ سرزمین ہے جہاں اسی دور قدیم میں اسلام آیا تھا اور خلفاء ثلاثہ کے دور کے بعد جب بادشاہوں نے ھندوستان پر حملہ کیا تو مختلف دوروں میں ھندوستان پر اسلامی حکومتیں قا‏‏ئم ہوتی رہی [ لیکن یہ اسلامی حکومتیں بس نام کی تھی جیسے کہ آگے چل کے ذکر کروں گا ]۔  

جب مسلمان ملوک غیر اسلامی ممالک پر حملہ آور ہونے لگے اور جگہ جگہ پر اسلامی پرچم لہرانے لگا تب مختلف ادوار میں متعدد جگہوں پر مسلمانوں کی حکومتیں تشکیل پانے لگی مثال کے طور پر تاتاریں کے حملے اور ان کی حکومت یا عثمانی حکومت ، یا محمود غزنوی اور  اورنگ زیب کے حملے وغیرہ اسی طرح جب جنوب ھند میں بہمنی حکومت قا‏ئم ہوئی اور قطب شاھی حکومت قا‏ئم ہوئی اور پھر دکن مین یہ سلسلہ عثمان علی خان آصف جاہ سابع تک چلتا رہا اور انھیں کے ھم زمان شیر ھند حضرت ٹیپو سلطان کی حکومت بھی سرزمین میسور [ کرناٹک ] میں قائم تھی تو ان سلطنتوں میں مسلمان بادشاہوں اور حملہ آوروں کا مقصد تو فقط مال غنیمت اور قتل و غارت تھا – جیسے کہ صدر اسلام سے چلتا آرھا تھا – لیکن مسلمان اولیاء خدا [ جو کہ اکثر و بیشتر امام علی علیہ اسلام و حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی نسل سے ہے ] جو توسیع عالم اسلام و نشر علوم اسلامی کا سبب بنے اور انھیں کے قدوم میمنت لزوم کا نتیجہ ہے کہ آج دیار ھند میں بھی مسلمانوں کی یہ کثیر تعداد پائی جاتی ہے ۔

اتنا ھی نہیں کہ سر زمین ھند میں مسلمانوں کی کثرت پائی جاتی ہے بلکہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان اسی سر زمین پر پاۓ جاتے ہیں ، [ لیکن ھند کے مختلف ٹکڑوں میں بٹ جانے سے پہلے ] ۔

 جس طرح سے بعض مسلمان مصنفوں کا نظریہ ہے [ جیسے کہ دور حاضر کے سنی عالم دین طاھر القادری نے سیف الجلی علی منکر ولایت علی علیہ سلام] کہ : خلافت روحانی پیامبرۖ کے بعد امام علی علیہ اسلام کو ملی ، بس اسی طرح سے بعد کے آنے والے دوروں میں اصل نشر دین اسلام بھی امام علی علیہ السلام کی نسل ھی سے نشو و نما پاتی رھی اور عموما سادات ھی ہیں جن کی زحمات کے باعث اصل دین دنیا کے کونوں تک پہونچا ۔ یہ دنیا آج اور تا قیامت اولیاء سادات و غیر سادات کی مرھون منّت رھے گی ۔

جنات سید علی خان کے والد کی ھندوستان آمد :

سید علی خان کے والد سید نظام الدین احمد ، سلطان ھند عبد اللہ قطب شاہ کے بلانے کے وجہ سے حیدرآباد دکن تشریف لے آۓ اور قطب شاہ نے نظام الدین سے اپنی بیٹی کی شادی کردی ۔

{ سید علی خان کی زندگی کا مختصر خاکہ }

تاریخ ولادت جمادی الاول 15 ، 1052 ھ میں مدینۂ منورہ میں ولادت ہوئی اسی لۓ مدنی کہا جاتاہے ۔

سید علی خان ماں کی طرف سے قانتۃ بنت غیاث الحکماء ابن صدر الحکماء سے سلسلۂ ملتاہے اور والد کی طرف سے تینتیس 33 سلسلہ بعد امام زین العابدین علیہ السلام سے جا ملتاہے ، حضرت نے اپنے والد کے بلوانے کے سبب اتوار کی شب ربیع الاول 1068 ھ میں حیدرآباد کا سفر کیا ۔ [ انوار الربیع ، ج 1 / ص 6 ]

سید علی خان اٹھارہ سال حیدرآباد دکن میں رہے اس عرصے میں تحصیل میں مشغول رہے خصوصا اپنے والد کے اھل مجلس علماء و ادباء سے کسب فیض کرتے رھے ۔ اور اسی دوران میں الحدا‏ئق الندیہ فی شرح الصمدیۃ تصنیف فرمائی ۔

شھر حیدرآباد کے ترک کرنے کا سبب یہ بیان کیا جاتاہے کہ جب اورنگ زیب نے ھندوستان پر قبضہ جمایا تو سید علی خان کو اپنی طرف دعوت کیا جس کی بنا پر حضوت کو حیدرآباد چھوڑنا پڑا ، اور تیرا سو 1300 گھوڑا سوار لشکر کی قیادت کے ساتھ برھان پور ھجرت کیا ، جب برھان پور پہونچے تو اورنگ زیب نے انھیں { خان } کا لقب دیا ، اور برھان پور کے اطراف اور حکومت لاھور کا ولی آپ کو مقّرر کیا ۔ [ مدنی شیرازی ، سید علی خان ، مقدمۃ المحقق ، ریاض السالکین ۔۔۔۔ ، ج1 / ص 9 طبح مؤسسۃ نشر اسلامی ، 1409 ھ ، قم ۔

[ ضمنا ایک بات ذکر کر دی جاے کہ یہ شیعہ دوسرا وہ عالم برجستہ ہے جس نے قاضی و ولی کی حیثیت سے شھر لاھور پر حکومت کی ہے ، پہلے قاضی القضات شھید ثالث نوراللہ شوستری ہیں جو اکبر بادشاہ کے دور حکومت میں تمام ھند اور خصوصا لاھور پر قاضی مقرر ہوۓ ، اور دوسرے سید علی خان ہیں ]

کچھ ھی مدّت بعد آپ وہاں سے ھجرت کر کے پھر حرمین کی زیارت کے لۓ نکلے اور پھر ایران و عراق کے زیارت گاہوں سے ہوتے ہوۓ اصفھان مین کچھ سال مستقرّ رہے ، وہاں سے ھجرت کر کے شیراز آے جہاں پر ان کے جدّ ، علاّمہ غیاث الدین منصور کا بنا ڈالا ہوا مدرسہ المنصوریہ تھا ، اخیر میں وھیں پر مقیم رھے اور ایک مفید مدرّس کی حیّثیت سے فرائض انجام دیتے رھے اور کچھ ھی عرصے بعد دار فانی سے کوچ کر گیۓ ۔

مدفن :

حرم احمد ابن موسی ابن الجعفر علیہ السلام الملقّب بہ  شاہ چراغ میں انھیں کے جدّ بزرگ وار غیاث الدین مندور کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ [ بہ حوالء بالا ، ص 11 ] ۔

تالیفات :

1.     سلافۃ العصر : گیاروی صدی ھجری کے ادباء کو ذکر کیا ہے ، پہلے اھل حرمین شریفین کے محاسن کو ذکر کیا ہے پھر اھل شام و مصر ، اھل یمن ، عجم و اھل عراق اور پھر آخری پانچوے طبقے میں اھل مغرب کو ذکر کیا ہے ۔

2.    سلوۃ الغریب و اسوۃ المغرب ۔

3.     الدرجات الرفیعۃ فی طبقات الامامیۃ من الشیعۃ : اس کتاب کو بارہ طبقات میں ذکر کیا ہے ، پہلے صحابہ پھر تابعین ، پھر محدّثین امامیہ ، علماء ، حکماء و متکلمین ، عربی علماء ، سادات صفوی ، ملوک و سلاطین ، امراء ، وزراء ، شعراء ، نساء  کو ترتیب وار ذکر کیا ہے ۔

4.     انوار الربیع فی انواع البدیع : یہ کتاب بدیعیات کی شرح ہے ، جسے بارہ شب میں تنظیم کیا ہے ۔

5.      الکلم الطیب و الغیث الصیب فی البدعیۃ الماثورۃ عن النبی و اھل البیت علیہطم السلام ۔

6.    ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید انساجدین :

حضرت کی سب سے زیادہ مشھور اور جلیل القدر کتاب ۔

7.    الحدائق الندیّۃ فی شرح الصمدیۃ ۔

8.     متوسط و صغیر ، دو صمدیہ پر شرحیں ۔

9.     موضح الرشاد فی شرح الارشاد : یہ علم نحو میں ہے ۔

10. رسالۃ فی اغلاط الفیروزآبادی فی القاموس :

11. مخلّاۃ ۔

12. الزھرۃ فی النحو ۔

13. نغمۃ الاغان فی عشرۃ الاخوان ۔

14. رسالۃ فی المسلسلۃ باالاباء : اس کتاب میں پانچ احادیث کو اپنے آباء و اجداد سے مسلسل امام تک ذکر سند کے ساتھ نقل کیۓ ہیں ۔

15. ملحقات السلافہ :

16. الطراز الاول فیما علیہ من لغۃ المعول :

17. رسالۃ سماھا نفثۃ المصدور ۔

18. کتاب محکم القریض ۔

19. دیوان شعر ۔ [ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین ؛ ج‏1 ؛ ص16 ] ۔