بسم اللہ الرحمن الرحیم

( امام خمینی اور وحدت اسلامی )

یہ مسئلہ کافی دقیق ہو نے کے علاوہ ضرورت وقت بھی ہے کہ ھم وحدت اسلامی کے موضوع پر قلم و زبان کو اٹھائیں ، عوام اتّحاد کے نام سے متنفّر ہو جاتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ اتّحاد یعنی سارے معاملات میں یک سوئی ہوجاۓ بغیر اس تفریق کے کہ حقّ و باطل بھی ہے یا نہیں اور صحیح و غلط کا معیار بس وحدت ہو اور کوئی اختلاف نظر نہ ہو اور کھن افکار اور متعصّب حضرات اتّحاد کو محال سمجھتے ہیں ، ان کی نظر میں اسلام یعنی چند جزئی افکار و رسوم میں محدود ہے ۔

اب ایسے عالم میں اتّحاد کرے تو کون کرے اور کس سے کرے ؟؟ عوام اور ظاھری ملّا حضرات دونوں ذھنی اعتقاد پر مجتھد ہیں ، مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتاہے جب ھم اس اتّحاد کو اھل تسنّن سے جوڑتے ہیں ، کیونکہ دائرۂ اسلام میں رہتے ہوئی بھی ھمارے سنّی شیعہ بھائی ایک دوسرے کو تخالف کی نہیں بلکہ تنافی و تضادّ کی نسبت سمجھتے ہیں – اور جزئی اور ایسی بے بنیاد باتیں جس کو شاید ایک مادّہ پرست بھی کوئی اھمیت نہ دیتاہو ، آپس میں فحش و کفر کی حدّ تک پہونچا دیتے ہیں ۔

اس میں کچھ تقصیر تو ھمارے ذاکروں اور ملّاؤں کی ہے جو اپنے غیر عاقلانہ و بے شعورانہ کارناموں کی وجہ سے وحدت اسلامی کے مخالف ہیں ، اور کچھ نیک عوام و علماء کی تقصیر و کوتاھی ہے جو حالات زمانہ سے جنبش تک کھانا نہیں چاہتے – بس ایسے ھی معمولی عوارض کی بنا پر یہ بدیھی و واضح مسئلہ صدیوں سے پیچیدہ و لاینحلّ سمجھا جا رہاہے ۔

اور ابھی بھی یہ مسئلہ اس وقت تک کاملا حلّ نہیں ہو گا جب تک ھم ایک عاقلانہ و باشعورانہ قدم نہیں اٹھاتے ، اور اپنے آپ کو تک تک فرد قوم اسے اپنی شرعی و وقتی ضرورت نہیں سمجھتے – کیونکہ وحدت ایک ایسا مسئلہ ہے جو ھزاروں سیکڑوں افراد کے متّحد ہونے کے باوجود ایک نادانوں کی احمقانہ چال کی وجہ سے ٹوٹ جاتاہے ، وحدت اسلامی کی خاطر ھر قوم و ھر نظریہ کے ھر شخص کو ، چاہے بزرگ ہو یا بچہ ، امیر ہو یا غریب ، عالم ہو یا جاھل ۔۔۔ ھر مسلک و مذھب کے تحت افراد کو اس بات پر متّحد ہوجانا چاہیۓ کہ جب تک ھم دائرۂ اسلام میں ہیں تب تک کوئی بھی ایک دوسرے کو کافر کہنے کا یا ایک دوسرے کی جان و مال و عزّت و ناموس پر حرف اٹھانے کا حقّدار نہیں ہے ، اور ھر کلمۂ لاالہ الاّ اللہ پڑھنے والے کی حمایت و خوش رفتاری اس پر لازمی ہے ۔

اقبال نے کیا خوب کہا تھا

آدمیت احترام آدمی ، با خبر شو از مقام آدمی

چاہے کوئی مانے یا نہ مانے میں یہ مانتاہوں کہ آج ھر شخص کوئی نا کوئی خطا پر ہے چاہے جس جھت و جس نوعیت سے ہو ، بنیادی نہ صحیح ایک جزئی و اعتباری ھی نوعیت سے کیون نہ ہو آج ساری عالم انسانیت خطا و اشتباہ میں ہے ( الانسان مرکّب من الخطا و النسیان ) – چاہے اس کا سبب درونی و ذاتی موانع ہوں یا بیرونی و خارجی عوارض ہوں ، بھر صورت کوئی ملّت و مملکت سے تعلّق رکھنے والا شخص بھی اپنی صفائی و حقّانیت میں خالص و ثابت نہیں ہو سکتا ۔ یا اعمالی و کرداری نقائص نکلیں گے یا بنیادی و اعتقادی عیوب نکلیں گے ۔ اور سب سے پہلے وھی شخص غلط ثابت ہو گا جو دوسروں کی باسبت اپنے آپ کو ھدایت یافتہ و حقّ بجانب سمجھنے لگے ۔

دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو حقّ و سچّ کی جستجو میں نہ ہو اور اپنے آپ کو گمراہی میں رکھنا چاہتاہو ، ھر کوئی اپنے آپ پر حقیقت و واقعیت کو روشن و منکشف کرنا چاہتاہے ۔

خود ھمارے لۓ بھی لوگوں کا طریقہ معیار نہیں ہے بلکہ ھمارے لۓ وہ سیرت  نمونہ ہے جو ھمارے رہنماؤں کا طریقہ رہا ہے ، جو آداب معاشرت ھمارے پیشوایان کے نقوش و آثار ہیں ، ھم انھیں کی پیروی کریں گے جو قرآن و سنّت کا طریقہ ہے – آیا زمانۂ نبوت و متقدّمین میں مسلمان نہیں تھے جو اختلاف نظر کے باوجود ایک دوسرے میں متّجد تھے ؟ آیا کیا آج سے پہلے بھی مسلمان  مسلمان پر کفر کا فتوی لگا کر ایک دوسرے کا خون بھانا جائز سمجھتاتھا ؟ اور پھر آپس میں خون ریزی سے مسئلہ حلّ ہو جاۓ گا ؟ اور ھم گروہ مقابل کو مٹا کر حقّ پر ثابت ہو جاۓ گے ؟؟؟ ۔

یہ باتیں صرف علماء یا نادانوں کے لۓ نہیں ہے بلکہ ھر مسلمان کو غور کرنے کے لۓ ہیں ۔ کہ آج حال حاضر میں ھمارا باھمی معاشرت و تعلّق کیسا ہونا چاہیۓ ۔ ایک دوسرے سے نفرت سے اس اختلاف کو مٹایا جاۓ یا محبت سے ؟ صرف دوسروں پر صحیح و غلط کا فتوی لگائیں یا ھماری بھی کچھ ذمّداری بنتی ہے ؟ اور آیا جو آج ھم مسلمان ایک دوسرے کے تعلّقات و میل جول کا جو عام دستور قائم کر رکھے ہیں وہ شرعا مشروع بھی ہے یا نہیں ؟۔ بہت دقّت نظر و تزکیہ کی ضرورت ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جاۓ ۔

امام خمینی رح اور اسلامی وحدت :

مرد مجاھد و بندۂ مؤمن ، عارف باللہ ، سیّد روح اللہ خمینی بانئ انقلاب اسلامئ ایران ، و بت شکن کفر و عصیان ، رونق روحانیت ، عزّت و حجّت اسلام ، امام خمینی وہ ذات ہے جس نے فقاھت و عرفان و فلسفۂ و سیاست کو ایک ھی جا جمع کردیاہے ۔ اور اپنی پوری عاقلانہ و انقلابانہ استعداد سے جمہور ایران کو ذلّت سے آزادی دی ہے – اور آج کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو اسلام یا مذھب کا نام دے کر کامیاب اور باعزّت ہو سواۓ ایران کے ۔   

ایک عجیب و متحیّر کر دینے والا سانحہ  امام خمینی کا انقلاب ایران میں اتّحاد بین المسلمین ہے کہ حضرت نے ایران کو عزّت و آزادی دلانے کے ساتھ ساتھ عالم اسلامی سے ھمدردی و اتّحاد و یک جھتی کا پیغام بھی دیا ہے اور جس کا ثبوت آج بھی باقی ہے جو ھم آج ھر اسلامی خصوصا شیعی ممالک میں ماہ مبارک رمضان کے آخری روز جمعہ کو " یوم القدس " مناتے ہیں جو کہ مردم فلسطین کے طرف سے دفاع ہے اور امام راحل کی دالی ہوئی بنیاد ہے ۔   

اگر امام خمینی کے علاوہ کوئی اور بانئ انقلاب ہوتا تو ھتما دیگر مفاسد بھی وجود میں آتی لیکن سیّد نے اس طرح سے لوگوں میں انقلاب لا یا کہ نہ اسلامی وحدت توٹی اور نہ انقلاب پر کوئی حرف آسکا – ایک نیک شخص اور روحانیت کو کچھ کرنے کے لۓ نہ صرف خارجی و غیر اسلامی طاقتوں سے لڑنا پڑتاہے بلکہ درونی اور بیرونی ھر دو دشمنوں سے دفاع کرنا پڑتاہے ، اور غیر دشمنوں سے نمٹنے سے پہلے آستین کے سانپوں کو مارنا پڑتاہے اور انقلاب اسلامئ ایران نے ایک تیر سے ان دونوں دشمنوں کو مارا ہے ۔ امام نے دائرۂ اسلام ھی میں کفر کو پھونٹ پھونٹ کر مارا اور اس سادگی سے کہ وحدت اسلام میں ایک رخنہ تک نہ آسکے ۔

دنیا میں بھی بہت سے مذھبی لوگ قدم اٹھاتے ہیں لیکن وہ آگے چل کر دھشت گرد و بدنام گروہ بن جاتے ہیں کیونکہ ان کے ارادے بد ہوتے ہیں اور جہاں کہیں بھی مذھبی کوئی کارنامہ انجام پاتاہے تو اس کے نتیجہ تک پہونچنے تک اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ مذھب کے نام پر خیر ھی ہوا ہے ، یا پھر مذھب و اسلام کا نام دے کر شرّ انگیزیاں انجام دی گئی ہیں؟؟ لیکن روح اللہ خمینی نے ایک ایسا معجزنما کارنامہ انجام دیا کہ اتنی بڑی کامیابی بھی نصیب ہو گئی اور وہ بھی دائرۂ اسلام میں رہتے ہوۓ ۔

اختلاف کے حقیقی معنے :

حقیقت ایک ہے لیکن ھر کوئی اسے اپنے اپنے انداز میں سمجھتاہے اس لۓ کوئی بھی کسی دوسرے کے طریقہ کو غلط نہ کہے اور یہ ھزار باتوں کی ایک بات ہے کہ ھر قوم و ملّت بلکہ ھر فرد کے برداشت و انعکاس کا طریقہ اپنے اپنے لحاظ سے جدا جدا ہوتاہے ھر فرد کا برداشت اس کے اپنے طریقہ سے ہوتاہے۔ کسی تجربہ کار کا جملہ ہے کہ:برداشت ھر ملتی باندازۂ اوست

رسول خدا ص نے فرمایا: إِنَّ اخْتِلَافَ‏ أُمَّتِی‏ رَحْمَة)

     میری امّت کا اختلاف کرنا رحمت ہے۔

اللہ نے انسان کو خلق ھی ایسے عناصر سے کیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف وتضادّ رکھتے ہیں یعنی آب وخاک و پانی وھوا انھیں مجموعۂ عناصر کا نام ہے "انسان جس میں بیک وقت مختلف شکلیں اور حالتیں اورکارنامے انجام پاسکتے ہیں اور بیک وقت سارے عناصر مختلف کام انجام دیتے ہیں،لھذا طبیعت بشر ھی میں اختلاف ہے اس لۓ اس میں مختلف حالتیں پیدا ہوتی ہیں اور ایک ھی نوعیت کا آدمی گوناگون کارنامہ انجام دے سکتاہے۔اختلاف  طبیعت کائنات اور فطرت بشر ہے۔

اس حدیث کے متعلق جب امام صادق ع سے پوچھا گیا تو فرمایاکہ اختلاف سے مراد اختلاف وتبدیلئ وطن ہے تحصیلئ علم کے لۓ۔(1)

کائنات کی ھر شۓ میں اختلاف ہے اب اس کی زیادہ تشریح نہیں دوں گا لیکن اصل مدعّی یہ کہ اختلاف خلائق ھی علامت حیات ہے جب تک کو‏ئی شۓ حرکت واختلافی شکل میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندہ ہے جیسے ھی ساکن ہو گئی اور سکوت اختیار کرلیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ جاندار نہیں رھی بلکہ مردہ ہو چکی ہے،حرکت واختلاف زندگی کی نشانی ہے،کائنات کی ھر وہ چیز جو ایک سے چار رنگوں میں رنگی ہوئی ہے زندہ ہے والّا موت بھی تو ایک حالت ہے لھذا ایک ھی حالت پر اڑے نہ رہیں بلکہ تبدیلئ احوال وزمان کے ساتھ بدلتے رہیں یہ حیات کی نشانی ہے۔

 آّپ کو دنیا کی ھر چیز حالت اختلاف اور تبدیل کی صورت میں نظر آۓ گی کیونکہ یہ علامت حیات ہے،بس اختلاف  رحمت ہے کیونکہ حرکت میں برکت ہے اس لۓ اختلاف میں رحمت ہے۔۔۔ بشرطی کہ اختلاف حدّ فساد تک نہ پہونچ جاۓ جب تک اختلاف فساد کی حدّ تک نہ پہونچ جاۓ اختلاف  رحمت ہے لیکن اگر اختلاف فساد کی شکل اختیار کر لے تب تو وہ قتل وغارتگری سے بھی بدتر ہے۔

علماء میں دو طرح کی روش فکر ہو تی ہے ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو کتابوں کو دنیا سمجھ کر پڑھتے ہیں اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کو کتاب سمجھ کر پڑھتے ہیں ۔ ایک کی دنیا محدود ہے کتابون میں اور ایک کی کتابیں ساری خدائی ہے ۔ اس سبب سے بھی علماء میں کافی اختلاف ہوجاتاہے ، کوئی کہتا ہے کہ کتاب صحیح ہے اور کوئی کہتا ہے کہ نہیں" جو کتاب میں آ گیا وھی سب کچھ نہیں بلکہ حقییقت کی دسترس و وسعت کتابوں سے بھی بڑھ کر ہے اوریہی بھتر ہے۔

علّامہ اقبال نے کیا خوب قوم کو جگانے کی کوشش کی تھی؛

حقیقت خرابات میں کھو گئی

یہ امّت روایات میں کھو گئی(2)

افسوس جو امت کلام محمد ۖعربی سے نہ جاگ سکی وہ اقبال کے اشعار سے کیا جاگے گی؟! یہ قوم کے جاگے ہوۓ علماء انبیاء کے برابر ہیں اور جو جاگتے ہوۓ سو رہے ہیں ان سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں۔

سارے اختلافات کا سبب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اس میں دو اھمّ اجزاء رکھے ایک جرّار وتوقّف ناپذیز عقل رکھی اور ایک اطمئنان بخش قلب رکھا ، سارے اختلافات وفسادات کا باعث یہی دو سبب ہیں؛بعض لوگ عقل کو زیادہ بروۓ کار لاتے ہیں اور جو عقل میں آجۓ اسی کی تایید کرتے ہیں،اوربعض حضرات قلب اورجو انگیزۂ قلب کا باعث ہو اسے ترجیح دیتے ہیں بس قلب ونظر کے نزاع ھی کو اختلاف وفساد کہا جاتاہے۔

بس اگر تھوڑا اطمئنان اور برابری وبرادری کے جذبے سے کام لیں توکبھی اختلاف ھی نہ ہوگا، آیۃ اللہ جواد عاملی کا ایک جملہ اگریہاں ذکر کیا جاۓ تو بیجا نہ ہوگاکہ حقیقت ایک ہوتی  ہے لیکن معرفت حقیقت مختلف ہوتی ہے۔

کسی کوطورمیسّرکسی کوعرش نصیب

جدا جدا ہے تجلّی نظر نظر کے لۓ

اس حقیقت کو درک کرنے کی کوشش کریں کہ اگر ابوذر جان لیں کہ سلمان کے دل میں کیا ہے تو انہیں قتل کر دیں گے (45)۔۔۔ جب نوے اور دسوے درجہ کے مؤمنین کے لۓ یہ فرمایا گیا تو ھمارے جیسوں میں تو اختلاف نظر ہونا ایک امر متّفق ہے لھذا جزئی اور معمولی باتوں کو اعتقاد بنا کر آپس میں پھونٹ نہ ڈال لیں،ھر آگے جانے والا اپنے پیچھے رہ جانے والے کو غلط ھی سمجھتاہے لیکن اس تقدیر کو سمجھ کر چلیں ، دنیا میں ھر کسی کا درجہ الگ الگ ہے ، ہے سب ایک ھی منزل کے راہی لیکن کوئی چار قدم آگے ہوتا ہے تو کوئی چار قدم پیچھے بس ۔

نبی کریمۖ جانتے تھے کہ میری امّت پر جمود و سکوت چھا جاۓ گا اس لۓ فرمایا کہ تمارا اختلاف باعث افزایش و کشادگی بنے گا ۔ جو باطل پر ہے اس کے عمل میں کوئی فائدہ نہیں اور جو حقّ پر ہے اس کے سکوت میں کوئی فائدہ نہیں ۔

اتّحاد کی خاطر راہ چارہ :

ایک خاص نقطۂ اشتراک جو میں بیان کرنا چاہتاہوں وہ یہ کہ اتّحاد کے یہ معنی بالکل نہ کیجیۓ کہ اتّحاد یعنی ھمارا تمام معاملات میں متّحد ہوجانا – یا آپس میں نظریّات و دینی مراسم میں کوئی فرق ھی نہ ہو – یا پھر یہ کہ کوئی کیسی دستکاری کی ھی نہ جاۓ جس میں ظاھر بناوٹ و وحدت میں اختلال نہ پڑے ۔۔۔۔۔۔ بلکہ اتّحاد یعنی جو اختلاف و فساد کی ضدّ ہے ، جو قلب دشمن اسلام پر پیغ برّان ہے ، اتّحاد یعنی جو دشمنوں کی سازشوں کا قمع قلع کردے ۔

جس طرح سے مالکی ، شافعی ، حنبلی ، حنفی مختلف مسلک ہونے کے باوجود اور اختلاف نظر و فتوی و عمل کے باوجود ایک دوسرے سے مل کر ہیں اور ان میں سے کوئی کسی کو کافر نہیں کہتا ، اور کوئی کسی کا مذھب کا باطل نہیں شمارتا ، بلکہ ھر کوئی حقّ پر ہیں کتب و ا]حادیث و روایات و ہختلاف معرفت کے بنا پر سب کے مسائل جداگانہ ہیں بس اسی طرح سے شیعہ مسلک بھی حقّ ہونے کے باوجود دیگر مذاھب و نظریّات سے فرق رکھتاہے ۔ اور اختلاف نظر کی بنا پر کوئی کافر نہیں ہوجاتا – اگر اختلاف نظر سبب کفر ہوتا تو سب سے پہلے ائمّۂ اربعہ ھی میں یہ وجہ موجود ہے اور آج بھی علماء میں اختلاف نظر و فتوی پایاجاتاہے ۔

نتیجہ : 

آپ میرے بیانات و اظھار نظر سے دل تنگ نہ ہوئیے گا خصوصا شیعہ حضرات ! کیونکہ اپنے فکر و نظر اور مذھب کے مطابق بول لے نے اور دلیل پیش کر دینے سے کوئی بھی حقّ پر ثابت نہیں ہوتا بلکہ خود وقت بتاۓ گا کہ حقّ پر کون تھا ؟ اور باطل کیا ہے ؟ ! اور اس بات پر یقین رکھیۓ کہ اتحّاد کے بعد ھتما یہ بات واضح ہو جاۓ گی کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ۔ اگر ھم غلط ہیں تو اصلاح کرنے کے لۓ پیچھے نہیں ھٹیں گے اور اگر حقّ پر ہیں تو پھر کافر کیون ؟؟؟۔

میں اس بات کا یقین کرتاہوں کہ شیعہ سنّی میں جتنا اختلاف نظر پایا جاتاہے اس سے کہیں زیادہ اتّحادی اسباب پاۓ جاتے ہیں ۔

بس آج مقتضاۓ زمانہ کے لحاظ سے یہ کی جیۓ گا کہ ساری عالم انسانیت سے ھمدردی و رحم دلی و بھائی چارہ سے پیش آئیے ، اور ھر کسی کو صحیح نہ ہو تو مسلمان ہونے کی اور مسلمان نہیں ہے تو انسان ہونے کی عزّت دی جاۓ ۔

اس طرح سے ھم اپنے اعتقاد و عمل پر بھی قائم رھیں گے اور مفاسد و دھشت کا بھی خوف نہ ہو گا ، اور مھدی موعود کے آنے تک پانچوں مذاھب پانچ انگشت بن کر رھیں گے ایر چہ یہ باتیں شاید بیشتر تحقیق طلب ہوں لیکن میں پس ایک مختصر اظھار مقالہ کے تحت ، ایک عاقلانہ و طالبانہ رای کو پیش کیا ہے ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ

محمّد باسط        

ولد            

محمّد ھاشم        

تاریخ 1435 ھ / رجب المرجّب / 24

     

حوالہ جات

- (1) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ الْکُوفِیُّ عَنْ أَبِی الْخَیْرِ صَالِحِ بْنِ أَبِی حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنِی أَحْمَدُ بْنُ هِلَالٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی عُمَیْرٍ عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ قَوْماً رَوَوْا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ إِنَّ اخْتِلَافَ‏ أُمَّتِی‏ رَحْمَةٌ فَقَالَ صَدَقُوا قُلْتُ إِنْ کَانَ اخْتِلَافُهُمْ رَحْمَةً فَاجْتِمَاعُهُمْ عَذَابٌ قَالَ لَیْسَ حَیْثُ ذَهَبْتَ وَ ذَهَبُوا إِنَّمَا أَرَادَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- فَلَوْ لا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِیَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَ لِیُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ‏ فَأَمَرَهُمْ أَنْ یَنْفِرُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَ یَخْتَلِفُوا إِلَیْهِ فَیَتَعَلَّمُوا ثُمَّ یَرْجِعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ فَیُعَلِّمُوهُمْ إِنَّمَا أَرَادَ اخْتِلَافَهُمْ مِنَ الْبُلْدَانِ لَا اخْتِلَافاً فِی دِینِ اللَّهِ إِنَّمَا الدِّینُ وَاحِدٌ.معانی الأخبار / النص / 157 / باب معنى قوله ع اختلاف أمتی رحمة ..... ص : 157

(42)(2)کلیات اقبال،بال جبریل،ص344۔