آج کا نظام حوذوی اور طری‍قۂ علماء قدماء 

کچھ شرح حال تو شبلی نعمانی کے مقالے سے ہوتی ہے کہ انھوں نے کچھ تبصرہ اپنے مقالات میں مدارس و دروس و نظام تعلیم کے متعلق کیا ہے ۔ اور جابجا ابن بطوطہ انڈلیسی نے بھی حوزوی نظام تعلیم و تربیت کا تذکرہ کیا ہے ۔ باقی ھمارے علماء گذشتگان کی سیرت بھی ھمارے سامنے ہے جس سے پتا چلتاہے کہ آج کے روحانیوں سے معاشرہ اور مذھبی تعلیم و زندگی میں اور پہلے کے طرز و طریقہ میں بالکل تضادّ کی نسبت ہے،کل تک علماء پیامبر کی شریعت کے محافظ تھے اور اپنے وظائف پر دل و جان سے پابند تھے نماز و روزہ و تلاوت کی کثرت تھی ۔ پر آج کے علماء و طلباء میں پژماندی و سستی ،حیرانی و ذلّت ہے ،آج جس کے پاس چار اینٹ ہے اس کی اپنی مسجد تیار ،اور جو بیچارہ سیاسی مسائل و کہیں سے چار پیسے کمانے میں ناکام رھا وہ دنیا کا بدترین مولوی ہے ،کل کے علماء بھوکے رھ کر بھی مضبوط تھے اور علم و تقوے کے علمبردار تھے لیکن آج کے جو جتنا کھاۓ اور کھلاۓ وہ اتنا بڑا عالم ہے ، کل کے علماء درباری معلوم تھے لیکن آج علماء بغیر درباری بنے عالم ھی نہیں کہلاتے ۔

کل بھوک عالم کو عالم بنا تی تھی آج شکم سیری معیار علم ہے جو جتنا چاق تن ہے اس مولوی کی اتنی عزت کی جاتی ہے،جیسے کہ اس شخص نے علم کھا لیاہے اور وہ سارا علم پیٹ میں جمع ہو گیا ہے ۔

آج تک یہ آئین نہ بن سکا کہ ایک مذھبی راھنما کو کن ویژگیوں کا حامل ہونا چاہیۓ ؟ان کے حدود کیا ہیں ؟ ان کی ذمّداری و وظائف کیا ہیں ؟ گویا آج تک حوزوی تعلیم و طریقہ کا کوئی مثبت راہ حلّ ھموار نہیں ہے ،ھر شخص اپنے اپنے حالات و ماحول سے جیتاہے ۔

 اس پر لطف یہ کہ اگر کوئی شخص ان مردوں میں زندہ دل نکل بھی جاتاہے تو وہ اسے ایک عجیب نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ان ناکاموں میں یہ کامیابی کی باتیں کہاں سے آگئی ؟! علمی حلقوں میں پیامبر ۖ کی سیرت و اخلاق سے زیادہ دیگر علمی مباحث میں گفتگو ہو رھی ہے ،آج تقوے کا معیار سیاست سے بدل چکا ہے ،اکثر حضرات خرافاتی باتوں کو اھمیت دیتے ہیں ،علماء میں خرافات ، اور لوگوں میں جھالت عروج پر ہے، حقیقت کن مسائل میں گم ہوگیئ ہے، پتا نہیں چلتا ،ھمارے طلباء کو ابھی خرافات سے فرصت ھی نہیں ہے کہ علمی مسائل میں پڑیں ،اتنا وقت ھی نہیں ہے نماز کے بعد دعا و قرآن پڑیں ،

لوگوں میں عزت نہیں ہے ، حقیت کی نگاہ سے دیکھا جاۓ تو خود ھمارے ھی معاشرہ میں اور خود ھمارے ھی لوگوں میں ھماری حیثیت و نقش زندگی کیا ہے ؟ آج ھی کا معاشرہ ھمیں ایک نا کارہ و گئی گذری نگاہ سے نہیں دیکھتا؟ آیا ھم گذشتہ علمی حلقوں کی با نسبت پیش رفت تر رھیں ہیں یا نقصان میں رھے ہیں ، کل تک ھمارے علماء غیروں کے معاشرہ میں بھی مّثبت و کامیاب تھے لیکن آج خود اپنوں میں ذلت ہے ۔

آج علوم دینی میں سب کچھ ہے لیکن زندگی نہیں ہے

ھر طالب علم نکل تاہے تو اس غرض سے کہ کبھی نہ کبھی آخر عمر تک اسے بھی درجۂ اجتھاد مل جاۓ گا ،اور لوگ ان کے فتوی پر عمل کریں گے ،کو‏ئی طالب علم یہ سونچنے کی کوشش نہیں کرتا کہ وہ اس معاشرہ کے لۓ ایک مثبت شخصیت ثابت ہو ،آپ خود سونچیۓ جب ھر انسان صرف اجتھاد کرنا چاہتاہے تو تقلید کون کرے گا اور ایسا کتنے لوگوں کی مرجعیت دنیا میں چل سکتی ہے ، اور پھر کیا حکمت یہی ہے کہ سب اجتھاد ھی کریں یا پھر آج کے مسلمان معاشرہ کو دوسرے علوم و فنون و مکاتب کی بھی ضرورت ہے ؟۔ کہیں صدیوں کا عرصہ گذرنے کے باوجود آج بھی مثبت راھیں ھموار نہیں ہے ، حتی کہ افسوس صد افسوس، ھم آج تک طب معصومین کو بھی تجربی و عملی پیراھن نہیں پہنا سکے جبکہ آج کی اشدّ ضرورت ہے اور دنیا مرض بدنی کے معاملات میں بیش از حدّ در گیر ہے ،یقینیات کی بجاے خیالات و مشتبھات ہیں ،عزت کی بجاے اپنے ھی وطن میں غربت کا عالم ہے ،طالب علم کا ایک ھی قدم نیکی کی طرف اٹھاتاہے اور وہ اس وقت اٹھا تاہے جب وہ علم کا راستہ چلنے کی سوچتاہے اس کے بعد تمام قدم اپنے ھی مقصد و منشاء کے خلاف اٹھاتاہے ۔ کیونکہ عملی زندگی مفلوج ہے ۔ جو ھر طرح کی دوا رکھتے ہیں بے چارہ وھی معلول ہیں ۔ جس معاشرہ کا طبیب ھی مریض ہو ان کی تو اللہ ھی خیر کرے ۔