بسم اللہ الرحمن الرحیم

تذکرۂ

{ شیعہ قاضئ القضات ھند }

علی امام من است و منم غلام علی ؛  ھزار جان گرامی فداء بنام علی

میرا ان پانچ حضرات کو انتخاب کرنا کسی خاص امتیاز کی بنا پر نہیں بلکہ میری کم حوصلگی و لا علمی کے سبب ، تھوڑی تعطیلاتی فرصت کو کام میں لانے کی کوشش کی ہے شاید اس کا ثواب میرے والدین و گذشتگان و دوستان اور خود محھے ملے ، اور ھماری مغفرت کا سبب بنے ، گذشتگان کی با نسبت میری کاوش ربع خردل کی اھمیت نہیں رکھتی لیکن ان عظیم و نامور حضرات کی یاد میں کچھ مختصر سی تفصیل لکھنے کا شرف حاصل کیا ہے ۔

تاکہ پتہ چلے کہ

ان تبوں کو بھی کعبے سے نسبت ہے دور کی

اب جب کہ مین لکھ رھا ہوں تو نہ کوئی ذخیم کتاب لکھنے کا ارادہ اور نہ کسی تحقیق کے چھپانے کی حرص ہے بس گذشتگان کے لۓ ایک نذرانۂ عقیدت ہے ۔

اگر قبول افتد زہے عزّ و شرف

ھندوستان پر ایک اجمالی نظر :

تاریخ ھند کے متعلق بعض شبھات :

یہاں کبھی بھی مطلق حکومت نہیں رھی حتّی کہ بادشاھت کے دور میں بھی ۔ ھندستان مین جہاں کہیں بھی حکومت قائم ہوئی ہے اس کی ابتداء دلّی سے ہوئی ہے ۔

دکن میں مسلمانوں کا ورود :

تیروی صدی عیسوی کی اسلامی حکومت کے معاشرتی وضعیت کو جالبالفاظ میں بیان کیا ہے میرا خیال ہے کہ شاید آج کی عوام کا بھی یہی حال ہے وہ لکھتاہے :

دکن میں اردو کی ترویج و ترقّی :

گولکندہ میں ٪80 فیصد امراء کی زبان فارسی تھی ۔ زیب حیدر ، بحر عمیق ، طباعت ؛ھندوستان آرٹ پرنٹر،بالسٹی کھیت دبیر پورہ حیدرآباد دکن ۔ ص 7 ۔محمد قلی شیعہ شیعہ عقاید کا پیرو تھا،اپنی تخت نشینی کے فورا بعد اس نے اپنے سکہ پر علم کا نشان کندہ کروایا جو امام حسین علیہ السلام سے اس کی عقیدت کا مظھر ہے۔محرم کے تمام رسوو اسی بادشاہ کے زمانہ میں جاری ہوۓ ۔ میر مومن استر ابادی نے بھی جو ایک مذھبی پیشوا تھے اپنے عقاید سے بادشاہ کو بہت متاثر کیا ۔ ص8