حفیظ نعمانی

اسے اتفاق بھی کہا جاسکتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم پروردگار کی عطا کی ہوئی اتنی زندگی میں آج تک کسی چھوٹی سے چھوٹی تنظیم کے بھی صدر نہ بن سکے۔ اور پوری دیانتداری سے کہتے ہیں کہ دل میں کچھ بننے کی خواہش بھی نہیں ہوئی۔ بعض دوستوں نے یہ دیکھ کر کہ ہم کسی دوسرے کو کچھ بنانے کے لئے اپنا سب کچھ دائو پر لگائے ہوئے ہیں کہا بھی کہ جب اتنی ہی محنت اور خرچ کرنا تھا تو خود کیوں نہ بن گئے؟ اور ہم نے ہمیشہ یہ جواب دیا کہ سابق بن کر زندہ رہنے کی ہمت نہیں ہے۔ اور انشاء اللہ سابق حفیظ نعمانی کبھی نہیں بنیں گے۔ عمر کی اس سیڑھی پر آتے آتے لکھنے والے بعض اخبارات کا سابق ایڈیٹر لکھ دیتے ہیں۔ لیکن اس کا اثر اس لئے نہیں ہوتا کہ آج بھی اخبار وہی محبت دلا رہے ہیں جو 1956 ء اور 1962 ء میں دلاتے تھے۔
یہ اس لئے لکھنا پڑا کہ ہمیں کبھی اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ کامیاب ہونے کے بعد۔ یہ۔ یہ۔ اور وہ کریں گے۔ لیکن نہ آپ نے یہ کیا نہ وہ کیا۔ لیکن جب سوچتے ہیں کہ ان پر کیا گذرتی ہوگی؟ جنہیں ہر برس میں سیکڑوں مرتبہ یہ سننا پڑتا ہوگا؟ ملک کا منظرنامہ ہر جگہ بدلتا رہتا ہے۔ اس زمانہ کے دیکھنے والے ابھی کروڑوں ہیں جب کانگریس سے بی جے پی کے لیڈر مطالبہ کرتے تھے کہ سی بی آئی کو غیرجانبدار آزاد ہونا چاہئے۔ وہ حکومت کے نہیں عدالت کے سامنے جواب دہ ہو۔ بی جے پی نے اپنے ہر انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دیں گے۔ دہلی میں امن و قانون کا مسئلہ اس لئے خراب ہے اور اس لئے ترقی نہیں ہورہی کہ وہ آدھا تیتر آدھی بٹیر ہے۔ اور ہر مخالف پارٹی اس حق میں ہے کہ سی بی آئی یا دوسری خفیہ ایجنسیاں حکومت کے کنٹرول میں نہ ہوں۔
سی بی آئی کی حیثیت برسوں سے سپریم کورٹ کے جیسی ہوگئی ہے۔ آج ہر کسی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہر اہم معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کی جائے۔ ہم اُترپردیش میں رہتے ہیں یہاں سی آئی ڈی بھی ہے اور سی بی سی آئی ڈی بھی جن کا کروڑوں روپئے مہینے کا خرچ ہے۔ ایسی ہی صوبائی ایجنسیاں ہر صوبہ میں ہوں گی۔ کسی کو یاد ہو نہو ہمیںیاد ہے کہ 60  اور 70  کی دہائی میں پولیس پر بھروسہ نہ کرنے کی وجہ سے لوگ کہتے تھے کہ سی آئی ڈی سے تحقیقات کرالی جائے۔ اور جب سی آئی ڈی سے بھروسہ اٹھا تو کہا جانے لگا کہ سی بی سی آئی ڈی سے کرالی جائے۔ اور آج چھوٹے سے چھوٹے معاملے کے لئے بھی نہ کوئی سی آئی ڈی کے لئے کہتا ہے اور نہ سی بی سی آئی ڈی کے لئے۔ ہر کسی کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ سی بی آئی سے تحقیقات کرالی جائے حد یہ کہ مجسٹریٹ سے بھی نہیں۔
1998 ء سے 2004 ء تک چھ سال مرکز میں بی جے پی کی حکومت رہی جس کے وزیر اعظم اٹل جی تھے اور اب 2014 ء سے پھر بی جے پی کی حکومت ہے۔ ان آٹھ برسوں میں ایک بار بھی کسی نے اعلان نہیں کیا کہ فلاں تاریخ سے سی بی آئی حکومت کو جواب دہ نہیںہوگی عدالت کو ہوگی۔ بلکہ سی بی آئی کا بوجھ کم کرنے کے لئے ایک اور فورس۔ این آئی اے بنائی گئی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ صاحب معاملہ کو سی بی آئی کی طرف دیکھنے کا خیال آنے سے پہلے ہی این آئی اے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گی۔ لیکن سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور ان کے ساتھیوں کو کلین چٹ دلاکر اور اے ٹی ایس پر یہ الزام لگاکر کہ فوجی افسر کے گھر میں آر ڈی ایکس کے بورے اس نے رکھوائے تھے۔ اپنے کو اتنا حقیر بنا لیا کہ وہ یوپی کی ایجنسیوں سے زیادہ بے اثر ہوگئیں؟ اور یہی حال رہا تو کسی معاملہ میں سی بی آئی بھی یوپی کی سی بی سی آئی ڈی ہوجائے گی۔
عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کیا ایک بار نہیں سو بار کہنے کے بعد کہ یہ غلط ہورہا ہے۔ اور ہم اگر حکومت بنائیں گے تو سب سے پہلے اسے تبدیل کریں گے اور آٹھ برس میں تبدیلی کا ذکر بھی نہ کرنے سے بھی شرم سے آنکھ نہیں جھکتی؟ چار دن پہلے پارٹی کے صدر امت شاہ ہاتھ میںایک پرچہ لے کر سبق کی طرح سنا رہے تھے۔ ہم نے یہ بھی کردیا وہ بھی کردیا مہنگائی بھی کم کردی ریلوے کے دلالوں کو بھی ختم کردیا۔ غرض کہ سب کردیا جبکہ ابھی صرف دو سال ہوئے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے ہر کام اس طرح ہورہا ہے جیسے 1952 ء سے ہوتا آرہا ہے۔ اور ڈھانچہ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی کچھ کرہی نہیںسکتا۔
حکومت سے باہر رہنے والی ہر پارٹی پولیس مینول اور جیل مینول تبدیل کرنے کی بات کرتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ورکروں پر جانوروں کی طرح  لاٹھی برساتی ہے اور وہ جب جیل میں جاتے ہیں تو جلی ہوئی روٹی اور بدبو دار سبزی کھانے کو ملتی ہے۔ لیکن حکومت بنتے ہی بدلنے کے بجائے یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اب ہم نہیں مخالف مارے جائیں گے اور جیل جائیں گے۔ 67  برس ہوگئے مگر آج بھی پولیس اور جیل مینول وہی ہیں جو 1862 ء میں انگریزوں نے بنائے تھے اور غلاموں پر حکومت کرنے کے لئے بنائے تھے۔
گذشتہ دس برس سے ہمارے بڑے بھائی جب لندن کی سردی سے بچنے کے لئے لکھنؤ آتے ہیں تو ہمارے ساتھ ہی قیام کرتے ہیں۔ اور آکر فرمائش کرتے ہیں کہ برائون بریڈ منگوائو۔ ہمارا سارا گھر سفید بریڈ سے ہی ناشتہ کرتا ہے۔ دو سال پہلے ہم اور وہ اکیلے ناشتہ کررہے تھے تو انہوں نے بدلے ہوئے لہجے میں کہا کہ تم یہ زہر کیوں کھاتے ہو؟ ہم نے عادت کے مطابق جواب نہیں دیا اور انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کیوںزہر ہے؟ کل دن اور رات میں اور آج ہر اخبار میں وضاحت ہے کہ اس کے کھانے سے کینسر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں اسے خوبصورت اور خوش ذائقہ بنانے کے لئے ایسے کیمیکل ملائے جاتے ہیں جو زہر ہیں۔ اب خیال آیا کہ بھائی صاحب نے شاید وضاحت اس لئے نہیں کی ہوگی کہ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ہندوستان میں بھی سب کو معلوم ہوگا کہ کیمیکل ملائے جاتے ہیں جن سے کینسر ہوسکتا ہے۔
آج مرکزی وزیر صحت فرمارہے ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم نے اپنے افسروں کو حکم دے دیا ہے کہ وہ اس کی گہرائی سے تحقیق کریں۔ جبکہ میڈیا چیخ رہا ہے کہ جو نمونے لئے گئے تھے ان میں 84%  میں یہ کیمیکل پایا گیا۔ اب کیا اسے حکومت کی صنعت کار نوازی کہا جائے کہ قوم سے کہا جارہا ہے کہ فی الحال زہر کھاتے رہو سیٹھوں کا نقصان نہ کرو سال چھ مہینے میں جب ہمارے افسروں کی رپورٹ آئے گی تب ہم بتائیں گے کہ کیا کرنا چاہئے؟ الزام صرف مودی سرکار کو ہی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ چار سال پہلے یہ معلوم ہوچکا تھا اور دنیا کے اکثر ملکوں میں اس کی فروخت پر پابندی لگ چکی ہے۔ اور شاید برطانیہ میں دس سال سے برائون بریڈ اسی لئے کھائی جارہی ہے؟ اس کے باوجود نہ منموہن سنگھ صاحب کو خیال آیا اور نہ مودی صاحب کو۔
ملک کی یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ حکومت کرنے کا ایک ہی گھساپٹا طریقہ ہے کہ افسروں اور پولیس کے ذریعہ حکومت کی جائے۔ فساد ہوجائے تو ایک سپاہی کی رپورٹ آخری رپورٹ ہے اور قدرتی تباہی آجائے تو جو لیکھ پال لکھ دے بس وہی گیتا اور رامائن ہے۔ پنڈت نہرو کے زمانے میں ڈاکٹر لوہیا چوکھمبا راج کی بات کرتے تھے اور بزرگ ہندو لیڈر رام راج کی۔ لوہیا وادیوں نے کبھی چوکھمبا راج کرکے نہیں دکھایا کہ وہ کیا ہے؟ اور سنگھ پریوار نے یہ نہیں دکھایا کہ رام راج کیسا ہوگا؟ پہلے دن سے آج تک نہرو راج ہورہا ہے اور نہرو مائونٹ بیٹن راج کرکے چلے گئے۔ اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ منسٹر صاحب فرمارہے ہیں کہ افسروں کی رپورٹ آنے دو۔ اور یہ نہیںدیکھتے کہ بڑے چھوٹے بیس ملکوں نے ہر بیکری پر پابندی لگادی ہے۔ 120  کروڑ انسانوں کی زندگی ان افسروں کی مٹھی میں ہے جن کے ایمان اور دھرم کا حال روز اخباروں میں آپ پڑھتے رہتے ہیں۔ اچھا یہ ہے کہ آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا کرنا ہے۔