تنویر احمد، کلکتہ

آر ایس ایس نظریات کی حامی بی جے پی کی فرقہ پرست جماعت نے ریاست مغربی بنگال کے سابقہ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں جس طرح مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت کا مظاہر کر رہی تھی، ممتا بنرجی کی سیکولر روایت اور سیاسی نظریات نے بنگال کی فضا میں بی جے پی کے ہندوتوا زہر کو  پھیلنے سے بالآخر دوسری بار روک دیا ۔ حالانکہ آر ایس ایس کا زرخرید میڈیا نے  ائمہ اور موذنین کے مشاہیر اور دیدی کی مسلم نوازی کا منفی پروپگنڈہ کر کے زعفرانی قوت کو تقویت پہنچانے کی کوشش  ضرورکی تھی۔ لیکن اسی اقلیت نوازی کو طاقت بنا کر ممتا بنرجی نے اپنی سیاسی دفاع کا  ایسا محاذ اور مورچہ کھولا کہ جنگل محل سے پہاڑ ی خطہ کے زعفرانی صفوں میں کہرام مچ گیا۔   2016 کے اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس اور سی پی ایم کے عوامی اتحاد کے منظر عام پرآنے سے  ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کی جانب سے یہ قیاس آرئیاں کی جارہی تھی کہ وہ  قومی سیاست میں کودنے کیلئے  بی جے پی کیساتھ کسی قسم کی سیاسی مفاہمت کرلیں گی۔ لیکن بنگال کے مسلمانوں کی اکثریت  نے ممتا بنرجی کے ترنمول کانگریس کو  جس طرح نمایاں کامیابی سے ہمکنا  ر کرایاہے ، اس کا لازمی اور  اخلاقی تقاضہ یہی تھا کہ ممتا بنرجی بھی مسلمانوں کو یہ بھروسہ دلاتیں کہ ان کی پارٹی نہ صرف ہندوتوکی منافرت پر قدغن لگانے  کی پابند ہے بلکہ ملک بھر میں زعفرانی دہشت کا ماحول ختم کرنے کے ضمن میں سیکولر روایت کے چراغوں کوروشن رکھنے کیلئے وہ  قندیلوں کی ذمہ داری نبھانے کیلئے بھی تیار ہیں۔
  ممتا بنرجی نے اللہ اور ایشور کے نام سے وزیر اعلیٰ کا حلف لے کر اپنے انہی عزائم کا نہ صرف مظاہرہ کیا ہے بلکہ قومی سیاست میں زعفرانی طاقتوں کو’’ اللہ کے نام سے‘‘  واضح پیغام بھی دے دیا ہے کہ بنگال کی دھرتی میں مظفر نگر کی کہانی دہرائی جا سکے گی اور نہ ہی دادری کا انسانیت سوز سانحہ کی تکرار ہوگی۔ مغربی بنگال کی مٹی زعفرانی آبیاری کیلئے فطرتی طور پر ویسے بھی زر خیز نہیں،سونے پہ سہاگہ یہ کہ بنگال کے عوام  کی اکثریت ممتا بنرجی کے ساتھ ہے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ترنمول کانگریس اپنے دامن میں بد عنوانی، شاردا ، نارد  اور سنڈیکٹ راج کے دھبوں کو لے کر بھی تنہا انتخاب لڑ کر  45.9 فیصد شرح ووٹ  کے ساتھ 211 سیٹوں کی غالب اکثریت حاصل کی ہے۔ وزیر اعلیٰ کی حلف برداری میں ممتا بنرجی نے سیکولر پارٹی نیز بہار کے عظیم اتحاد کے علمبردار وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور لالو یادو کی موجودگی سے قومی سیاست میں طوفان کھڑا کرنے کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی حلف برداری تقریب میں مدعو قابل لحاظ سیکولر شخصیات میں نیشنل کانفرانس کے فاروق عبداللہ کے علاوہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو  اور ڈی ایم کے کی کانی موزھی بھی موجود تھیں۔ حالانکہ مرکزی حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے ارون جیٹلی کی شرکت بی جے پی کا ایک ایسا خجالت آمیز قدم تھا جو اسکی ریاستی خیموں میں کنفیوژن کا سبب بن کر رہ گیا۔ ایک طرف بی جے پی کی ریاستی قیادت نے ممتا بنرجی کی حلف برادری تقریب کا بائیکاٹ کیا تو دوسری جانب مرکزی قیادت کی نمائندگی میں ارون جیٹلی کی حاضری  قومی سیاست میں بی جے پی  کی اس لاچاری اور بے بسی کا منظر نامہ پیش کررہا تھا جو  راجیہ سبھا  کے اجلاس کے دوران اسے در پیش ہے۔
ممتا بنرجی کا وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے دوسرے ٹرم کی حلف براداری میں جس طرح عوامی شرکت نیز سیکولر لیڈروں کا اجتماع ہوا ہے ، وہ آئندہ لوک سبھا انتخاب میں ہونے والے سیکولر جماعتوں کا لازمی اتحاد کا پیش خیمہ دکھائی دیتا ہے۔ بادیٔ نظر میں ممتا بنرجی کی دعوت پر نتیش کمار اور لالو یادو کا حاضر ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ مغربی  بنگال کی سیکولر طاقت سے یہ لیڈران بھی خوب واقف ہیں۔ شبہات اگر ہیں تو ممتا بنرجی  کے جذباتی فیصلوں کی کہ وہ کسی معاملے میں عاجلانہ فیصلے کی بنیاد پر ترک تعلق کر بیٹھتی ہیں اور اسی کمزورپہلو کو ذہن میں رکھ کر ایک بڑا فیصلہ مستقبل قریب میں دکھائی دے سکتا ہے۔ملک و قوم کو بی جے پی کی ہندتوا کا متبادل دینے کیلئے سیکولر جماعتوں کا ایک پائدار اور مستحکم متبادل ناگزیر ہے۔ آر جے ڈی ،جے ڈی یو اور انڈین نیشنل کانگریس  کے عظیم اتحاد نے جہاں بہار کی تاریخ میں سیکولر محاذ کا حوصلہ بڑھایا ہے وہیں ایک قابل لحاظ مسلم آبادی والی ریاست آسام کے  اسمبلی  انتخاب میں بدرالدین اجمل کی یو ڈی ایف اور کانگریس کی عاقبت نا اندیش سیاسی حکمت عملی نے بی جے پی کو پہلی بار  بام اقتدار تک پہنچادیا۔ آسام میں نام نہاد بنگلہ دیشی دراندازی کا پروپگنڈہ اور ہوا کھڑا کر کے ملک بھر میں ہندتوا کی منافرت پھیلانے نیز ہندو مسلم تفرقہ  بازی کی سیاست کا اگر چہ بی جے پی کوحربہ ہاتھ لگ گیا ہے جس کا سلسلہ آئندہ لوک سبھا انتخابات تک جاری رہنے کا اندیشہ ہے۔ لیکن بنگال میں اللہ اور ایشور کے نام سے سیکولر روایت اور قدروں کا ممتا بنرجی کی جانب سے جو اعادہ کیا گیا ہے ، وہ بھی قومی سیاست کی گنگا جمنی تہذیب کا  عنوان بنتا نظر آ رہا ہے ۔