فلوجہ شہرعراقی صوبہ انبارمیں آتاہے اور یہ دارالسلطنت بغدادسے تقریباً ساٹھ کیلومیٹرشمال مغرب میں واقع ہے، اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق 2004ء میںیہاں کی آبادی چارلاکھ تہترہزارتھی،جبکہ صدام حسین کے دورِ صدارت میں کی گئی سرکاری مردم شماری کے مطابق وہاں کی کل آبادی سات لاکھ تھی،اچھے دنوںمیںفلوجہ عراق کے اُن شہروںمیں شمارہوتا تھا،جہاں مساجدکی کثرت تھی،2004ء سے پہلے اس شہرمیںکل دوسوپچاس مساجدتھیں،اس شہرکی زیادہ ترآمدنی کا ذریعہ کھیتی تھی،چوںکہ اس کے جنوبی کنارے پر دریائے فرات واقع ہے؛اس لیے پانی کی فراوانی ہوتی تھی اورمختلف موسموںمیں لوگ الگ الگ قسم کی فصلیں اُگاتے تھے،اسی مناسبت سے اس شہرکانام ’فلوجہ‘پڑا؛کیوںکہ اس کا ترجمہ ہے وہ زمین جوکھیتی کے لائق ہو(لسان العرب)سیاسی و دفاعی اعتبار سے ماضی سے لے کراب تک اس شہر کوغیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے؛چنانچہ جس زمانے میں دنیاپرفارس و روم کی قوت وشوکت کے غلغلے تھے،اُس وقت بھی یہ عراقی شہرعالمی طاقتوںکی باہمی کشمکش کی آماجگاہ رہا، اسلامی دورِحکومت کے اموی عہدمیں یہ علاقہ فوجی اسٹیشن کے طورپراستعمال میں رہا،عباسیوںنے بھی بغدادکی تاسیس سے پہلے صوبۂ انبارکوہی صدرمقام بنایاتھا،اسی طرح عثمانی خلافت کے دورمیں بھی فلوجہ میں ہی فوجی اسٹیشن ہواکرتاتھا۔جب بیسویں صدی کے چھٹے عشرے میں بعثیوںنے عراق پرقبضہ کیا، توانھوں نے بھی اس خطے کی اسٹریٹیجک اہمیت کوسمجھااوریہ علاقہ ان کے لیے بھی بہت خاص رہا،یہاں تک کہ9؍اپریل2003ء کوبغدادسمیت پوراعراق امریکی جارحیت کاشکارہوکرکشت وخون اور جبروقہرکے ایک نئے دورمیں داخل ہوگیا،جس کا سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔امریکہ نے اس شہراور پورے عراق پرحملہ تواس بہانے سے کیاتھاکہ صدام حسین نے مہلک ہتھیاربناکرچھپارکھے ہیں،جودنیاکے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں؛لیکن اس کی کمینگی،خست اور بے ایمانی کی داددیجیے کہ امریکی افواج نے ہی عراق پر حملے کے دوران بعض ایسے ہتھیار بھی استعمال کیے،جوعالمی قانون کے مطابق ممنوع تھے،جب 2003ء میں امریکہ فلوجہ شہرپرقبضہ نہ کرسکااور وہاں کے شہریوںنے زبردست پامردی اور جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی ظلم و جورکا دنداں شکن جواب دیا،تواس نے وہ مہلک ترین ہتھیاراستعمال کیا،جس کے اندوہ ناک اثرات وہاں پیداہونے والے بچوںپراب بھی ظاہراورنمایاں ہیں،عالمی رپورٹس میں اس شرمناک حقیقت کا اعتراف کیاگیاہے،2010ء میںبرطانوی اخبار’انڈیپنڈنٹ‘میںلیڈزیونیورسٹی برطانیہ میں ماحولیات کے ایک پروفیسرنے اپنے کالم میںناٹوسے مطالبہ کیاتھاکہ ان ہتھیاروںکی جانچ کی جانی چاہیے،جوامریکی افواج نے فلوجہ پر حملے کے دوران استعمال کیے تھے۔جس دن سے امریکہ نے عراق پرقبضہ کیااور فلوجہ شہراور وہاں کے شہریوںکواپنی درندگی و حیوانیت کانشانہ بنایاہے،تب سے لے کر آج تک وہاں امن و امان کانشان نہیں ہے،جس شہرمیں کل آبادی سات لاکھ لوگوں پر مشتمل تھی،وہاں اب تازہ خبروںکے مطابق صرف سترہزارلوگ بچے ہیں،باقی شہری یاتوناکردہ گناہی کے جرم میں شہید ہوچکے ہیں یاوہاںسے کسی طرح جان بچاکرنکلنے کے بعداب پڑوس کے ملکوںمیں دربدری کی زندگی گزاررہے ہیں۔