اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ حیدرآباد: سرزمین حیدرآباد پر پہلی مرتبہ شیعہ تنظیم مجلس علماء ہند اور سنی تنظیم آل انڈیا سنی علماء و صوفیاء بورڈ کی جانب سے ایک عظیم الشان کانفرنس بعنوان ''دنیائے اسلام دہشتگردی اور انتہا پسندی کی مخالف''آشیانہ بنکئوٹ بنجارہ ہلز میں منعقد ہوئی۔

آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی کا پیغام ویڈیو کے ذریعے نشر کیا گیا۔ عزت مآب جناب حسن نوریان قونصل جنرل اسلامی جمہوریہ ایران متعینہ حیدرآباد نے استقبالیہ تقریر کی۔

ہندوستان میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے حجة الاسلام والمسلمین جناب مہدی مہدوی پور نے اپنے خطاب کی ابتداء میں مہتمم حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ مرجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی دام ظلہ کے تعاون پر شکریہ ادا کیا۔

آقائے مہدی مہدوی پور نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام رحمت و کرم پر مبنی دین ہے جو نبی رحمت ۖکے ذریعے بشریت تک پہنچا۔ ایسے دین رحمت میں ایک طبقہ ابھرا جو جہالت، فکری تعطل و جمود اور خشک مغزی کی وجہ سے عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑا فتنہ بن گیا جن کو تاریخ ''خوارج'' کے نام سے جانتی ہے ۔آج پھر اسی فتنے نے ''داعش'' کے نئے نام سے دوبارہ سر اٹھایا ہے ۔ شام اور عراق میں عنقریب یہ خونخوار دہشت گرد مسلح گروہ کو شکست فاش کا سامنا ہے ۔ خوارج اور داعش کے وجود میں آنے کی اصل وجہ بے بصیرتی ہے ۔ داعش ایک ایسے آدمی کو اپنا خلیفہ مان رہے ہیں جو صہیونیوں کی جاسوسی تنظیم سے وابستہ ہے ۔ میں یہ توقع کرتا ہوں ایسی کانفرسیں بصیرتوں میں اضافہ کا سبب قرار پائیں گی اور لوگوں کی آگہی میں اضافہ ہوگااورگمراہ کن افکار کا سدباب ہو سکے گا۔

ایران سے تشریف لائے ہوئے محقق حجۃ الاسلام و المسلمین محمد حسن زمانی نے اپنے بصیرت افروز اور ولولہ انگیز خطاب میں قرآن مجید کی متعدد آیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اسلام میں شدت پسندی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام، خود سلم سے لیا گیا ہے جس کے معنیٰ سلامتی کے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب بھی وہ آپس میں ملیں تو ایک دوسرے کو سلام کریں یعنی ایک دوسری کی سلامتی چاہیں۔ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو بھی اپنی زبان سے ہی اگر اسلام ظاہر کرے تو اسے ہم مسلمان ہی سمجھیں۔ قرآن مجید نے پانچ صفتیں مسلمانوں کی ایسی بیان کی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ اسلام کا دہشتگردی اور شدت پسندی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ اس کے بر خلاف تکفیری مسلح دہشت گرد اسلام کے نام پر پانچ ایسے کام کر رہے ہیں جس کے کرنے سے قرآن مجید نے سخت منع کیا ہے۔ قرآن نے رسول خداۖ کے ساتھیوں کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ رسول خدا ۖ کے ساتھی مسلمانوں پر رحم دل اور کفار پر شدید ہیں جبکہ تکفیری دہشت گردوں کی روش یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر شدید اور کفار پر رحم دل ہیں۔ داعش کے زخمیوں کا علاج اسرائیل کے ہسپتالوں میں ہوتا ہے ۔ قرآن مجید نے ایک مسلمان کی جانب سے دوسرے مسلمان کو کافر قرار دینے سے سخت منع کیا ہے ۔ تکفیری اپنے علاوہ سبھی مسلمانوں کو کافر اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔ اسی بناء پر وہ حنفی ، شافعی، مالکی اور شیعہ علماء و عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ شام کے حنفی المسلک مشہور عالم دین شیخ رمضان بوتی کو داعش نے بڑی بے دردی سے قتل کردیا اور ایران کے کردستان کے شیخ الاسلام ٨٠ سالہ بزرگ عالم دین کو اللہ کے مہینے میں اللہ کے گھر میں عین نماز مغرب کے بعد افطار کے وقت بم پھینک کر قتل کر دیا ۔ جب اس بمبار سے پوچھا گیا کہ کیوں تم نے ماہ مبارک اور مسجد میں ایسا کام کیا تو اس نے کہا کہ اس لئے تاکہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکوں۔ جب جنت البقیع میں کھڑے ایک تکفیری عالم سے پوچھا گیا کہ کیوں تم نے جنت البقیع میں موجود اہل بیت اطہار(ع) اور اصحاب کے مزارات کو ڈھادیا تو کہنے لگا کہ قبور کی زیارت شرک ہے، اگر امت مسلمہ کے ردّ عمل کا خوف نہ ہو تو ہم گنبد خضراء کو بھی ڈھا دیں۔ محض مسلمانوں کے غم و غصے سے ڈر کر یہ تکفیری عناصر گنبد خضراء کو نہیں ڈھا رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں صالح قیادت کے زیر نظر شیعہ اور سنی علماء ایک ساتھ مسلمانوں کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ شیعہ سنی اتحاد کو فروغ دینے کے لئے ''مجمع جہانی برائے تقریب مذاہب اسلامی'' نام کا ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جو سال بھر مسلمانوں میں اتحاد کے فروغ کے لئے کام کرتا ہے ۔اسلامی جمہوریہ ایران میں برادران اہل سنت کی سترہ ہزار مساجد ہیں ۔

آقائے زمانی کے بعد جھار کھنڈ سے تشریف لائے ہوئے عالم دین مولانا انوار القادری نے بھی اپنے معرکة الآراء خطاب میں کہا کہ اسلام نہ صرف انسانوں کے حقوق کی رعایت سکھلاتا ہے بلکہ جانوروں کے حقوق کی رعایت کی تعلیم ہمیں ہمارے نبی پاک ۖ نے دی ہے ۔ ایک عورت نے اپنے گھر میں ایک بِلّی کو باندھ کر کئی روز تلک اس کو کھانے پانی سے محروم رکھا جس کے سبب وہ مر گئی تو آپۖ نے اس عورت کے بارے میں کہا وہ عورت جہنمی ہے ۔ ایک عورت نماز روزے کی پابند تھی لیکن پڑوسیوں سے اس کا رویہ ٹھیک نہیں تھا اور ایک دوسری عورت نماز روزے کی اتنی پابند نہیں تھی لیکن پڑوسیوں کے ساتھ اس کا رویہ ٹھیک تھا تو نبی پاک ۖ نے فرمایا کہ جس کااپنے پڑوسیوں سے رویہ ٹھیک نہیں ہے وہ جہنمی ہے اور جس کا اپنے پڑوسیوں سے رویہ ٹھیک ہے وہ جنتی ہے ۔ پڑوسیوں کے اتنے حقوق اسلام نے بتلائے کہ لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا کہ اسلام کہیں پڑوسیوں کو ترکہ دینے کی بات نہ کردے۔ اگر پڑوسی غیر مسلم بھی تو اس کے حقوق کی رعایت کرنا مسلمان کے لئے ضروری ہے ۔ اسلام اور دہشت گردی دو متضاد چیزیں ہیں ۔ جہاں اسلام ہے وہ دہشت گردی نہیں جہاں دہشت گردی ہے وہاں اسلام نہیں۔ ایسی کانفرنسوں کے ذریعے زمانے کو یہ پیغام دینا ہے کہ اسلام ایک امن و سلامتی کا مذہب ہے ۔ 

ایران سے تشریف لائے ہوئے مہمان مقرر حجة الاسلام والمسلمین مولانا سید احتشام عباس زیدی نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیا اور انہیں مغرب کی ثقافتی یلغار سے بچنے کی تلقین کی۔ انہوں نے قیادت کے مسئلہ پر زور دے کر کہا کہ جہاں مسلمانوں کے پاس صالح قیادت ہے وہاں مسلمان سرخرو ہیں۔ جہاں قیادت کا فقدان ہے وہاں مسلمان پست ہیں۔ لہٰذا جو مضبوط قیادت ایران میں ابھری ہے اس قیادت کو ایران کی سرحدوں سے باہر آنا ضروری ہے حکومت کے لئے نہیں تو کم ازکم لوگوں میں قیادت کے شعور کو جگانے کے لئے ہی صحیح۔ قیادت اتنی ضروری ہے کہ آخری زمانے میں امام مہدی  آئیں گے جن کے بارے میں شیعہ کہتے ہیں کہ پیدا ہو گئے لیکن غائب ہیں ظہور کریں گے اور سنی کہتے ہیں کہ پید اہونگے تو ساری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے ۔

مولانا احتشام عباس زیدی کے بعد کویت سے تشریف لائے مہمان مقرر الحاج مصطفی غلام نے انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس کانفرنس میں دہشت گردی کی جڑوں کو اور اس سے مقابلہ کی جڑوں کو پہچاننا ہوگا۔ سب سے پہلی دہشت گردی مسجد کوفہ میں امیر المومنین حضرت علی(ع) کے سر پر ضربت لگا کر کی گئی تھی جس کا تسلسل آج مساجد اور مقدس مقامات کو نشانہ بنانے کی صورت میں جاری ہے ۔ ہندوستان کے مسلمان خوش قسمت ہیں کہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ان کی تلاشی نہیں لی جاتی جبکہ مشرق وسطیٰ کا یہ حال ہے کہ مسلمان اس وقت تک مسجد میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان کی تلاشی نہ لے لی جائے ۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے تعلیم کو فروغ دینا ہوگا، غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا کیونکہ اکثر خود کش بمباروں کو جن کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے لالچ دے کر خودکش بمباری پر آمادہ کیا جاتا ہے ۔ عالم اسلام میں جاری آمریت بھی دہشت گردی کا ایک اہم سبب ہے وہ اپنی آمرانہ حکمرانی کو باقی رکھنے کی خاطر شیعہ سنی کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو پہلے اس کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔

الحاج مصطفی غلام کے بعد حجة الاسلام والمسلمین مولانا آغا مجاہد حسین نے اپنے مختصر مگر جامع خطاب میں کہا کہ مسلمان اسی وقت آپس میں لڑ سکتے ہیں جب ان کا رخ اللہ سے پھر گیا ہو جن کا رخ اللہ کی طرف ہوتا ہے وہ آپس میں کبھی نہیں لڑتے۔ آیت اللہ شہید باقر الصدر  کا ایک جملہ کافی مشہور ہے کہ وہ اپنے شاگردوں سے فرماتے تھے کہ خمینی میں اسی طرح گُھل جاؤ جس طرح وہ اسلام میں گُھل گئے ہیں۔ امام خمینی کی شخصیت ان کے بیانات کی روشنی میں سب سے پہلے ایک اسلامی شخصیت ہے جو ہمیشہ اسلام کے لئے یہ تعبیر بیان کرتے تھے ''اسلام ناب محمدی''یعنی خالص محمدی اسلام اور خالص محمدی اسلام ہی ہمیں اللہ کی بندگی پر آمادہ کرتا ہے ۔ جو اللہ کے بندے ہوتے ہیں وہ ناحق کسی چیونٹی کو بھی نہیں ملتے ۔

مولانا محمد فصیح الدین نظامی لائبرئیرن جامعہ نظامیہ نے اپنی فصیح و بلیغ تقریر میں کہا کہ اسلام میں مسلک موجود ہے مسلک کو مسلخ نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے اہل بیت اطہار(ع) کی اہم شخصیت امام محمد تقی (ع) کا وہ قول نقل کیا جو ظلم کی مذمت میں ہے ۔ انہوں نے شیخ سعدی شیرازی اور خواجہ اجمیری  کے متعدد اقوال و اشعار پیش کر کے کہا کہ اولاد آدم ایک جسم کے مانند ہیں اگر جسم کے ایک حصہ تکلیف میں ہو تو دوسرا حصے کو بھی قرار نہیں رہتا۔ جناب منیر الزماں خاں نے کہا کہ ایران کی صالح قیادت کا یہ نعرہ  لا شیعہ ولا سنیہ اسلامیہ اسلامیہ ۔ امت مسلمہ جب سے اپنا فرض منصبی بھلا چکی ہے اسی وقت سے وہ مصائب سے دوچار ہے ۔ امت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کی کوشش میں لگ جائیں تبھی مسلمان کامیاب و کامران ہونگے ۔

آخر میں پیر طریقت مولانا قبول بادشاہ قادری شطاری نے اپنے خطاب میں حضرت علی  کے فضائل بیان کئے اور اس در سے وابستگی میں ہی کامیابی کو مضمر جانا۔ پیر طریقت مولانا قبول بادشاہ قادری شطاری کے دعائیہ کلمات پر اس عظیم الشان سمینار کا اختتام عمل میں آیا۔ ختم جلسہ کے بعد علماء و مشائخ حضرات کی خدمت میں مومنٹو پیش کئے گئے۔کانفرنس کے کنوینر حجة الاسلام مولانا سید تقی رضا عابدی (تقی آقا) سکریٹری مجلس علمائے ہند، کے اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں حجة الاسلام مولانا سید شہوار حسین نقوی (امروہہ) ، حجة الاسلام مولانا سید کرامت حسین جعفری (ممبئی) ،ڈاکٹر شوکت علی مرزا (صدر نہج البلاغہ سوسائٹی ) ،حجة الاسلام مولانا مرزا شبیر علی شیرازی، حجة الاسلام مولانا غروی (دہلی)، حجة الاسلام مولاناشاداب (اورنگ آباد) ، حجة الاسلام مولانا غلام محمد مہدی خاں(چیف شیعہ قاضی حکموت ٹملناڈو و امام جمعہ چنئی) ،حجة الاسلام مولانا مرزا رضوان علی اصفہانی (بینگلور) ، ثقة الاسلام مولاناسید غلام سیدین رضوی قمی دیانت خوانی، حجة الاسلام مولانا محمد عباس مسعود، جناب سید جعفر حسین ایڈیٹر روزنامہ صدائے حسینی، جناب میر عنایت علی باقری ( صدر نشین سیٹ ون )،جناب الیاس رضوی ( آئی ایف ایس) ۔  ابتداء میں تلاوت قرآن مجید کا شرف قاری سید متین علی شاہ قادری نے حاصل کیا۔نظامت کے فرائض جناب شجیع اللہ فراست نے انجام دیئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔