شاہ خراسان

وبلاگ اطلاع رسانی اخبار و احوال جہاں اسلام ، تبلیغ معارف شیعی و ارشادات مراجع عظام ۔

۳۴ مطلب با موضوع «اردو اخبار» ثبت شده است

’’ ہندوستان میرا گھر ہے اور یہیں مجھے مرنا ہے‘‘


’’ ہندوستان میرا گھر ہے اور یہیں مجھے مرنا ہے‘‘

 

اٹلی میں پیدا ہونے پر فخر، مودی یہ بات سمجھ نہیں سکتے ، سونیا گاندھی کا جذباتی خطاب

تھرواننتاپورم ۔ 9 مئی (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اٹلی نژاد ہونے پر کی جارہی تنقیدوں کا انتہائی جذباتی انداز میں جواب دیتے ہوئے صدر کانگریس سونیا گاندھی نے آج کہا کہ ہندوستان ہی ان کا گھر ہے۔ یہیں ان کی استھیاں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ گھل مل جائیں گی۔ صدر کانگریس نے آج ایک انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کو شدید تنقیدوں کا نشانہ بنایا جنہوں نے گذشتہ تین دن کے دوران متنازعہ آگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر معاملت کے سلسلہ میں سونیا گاندھی کے اٹلی نژاد ہونے کا مسئلہ بار بار اٹھایا۔ سونیا گاندھی نے آج کہا کہ وہ کچھ نجی باتیں آپ سے کرنا چاہتی ہیں اور اس میں کوئی سیاسی بات نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کانگریس پارٹی اور بالخصوص ان (سونیا) کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ واضح کرنا چاہتی ہیکہ یقینا ان کی پیدائش اٹلی میں ہوئی۔ وہ اندرا گاندھی کی بہو کی حیثیت سے 1968ء میں ہندوستان آئی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 48 سال ہندوستان میں گذارے۔ یہی ان کا گھر ہے۔ یہی ان کا ملک ہے۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ ہندوستان میں 48 سال کے دوران آر ایس ایس، بی جے پی اور بعض دیگر جماعتوں نے ہمیشہ انہیں پیدائش کے تعلق سے نشانہ بناتے رہے لیکن انہیں اپنے والدین پر فخر ہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ انہیں اس بارے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی اور یقینا اٹلی میں ان کے رشتہ دار موجود ہیں۔ ان کی 93 سالہ ماں اور دو بہنیں اٹلی میں ہیں لیکن وہ وہیں رہتی ہیں اور ہندوستان میرا ملک ہے اور میرے اپنوں کا خون یہاں کی سرزمین میں ملا ہوا ہے۔ میں بھی اپنی آخری سانس یہیں لوں گی اور میری استھیاں بھی آپ کے اور میرے چاہنے والوں کے ساتھ مل کر بہیں گی۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کا مقصد صرف ان کی کردارکشی ہے اور ان کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم میری ملک سے وابستگی کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں لیکن ہندوستان کیلئے میرے دل میں جو محبت ہے اس سچائی کو وہ کبھی نہیں بدل پائیں گے۔ مجھے توقع نہیں ہیکہ وزیراعظم نریندر مودی ان احساسات کو سمجھ پائیں گے لیکن مجھے پتہ ہیکہ عوام ضرور سمجھیں گے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس یا پارٹی کے کسی لیڈر کا نام لئے بغیر کہا تھا کہ اگر اٹلی میں عدالت یہ کہتی ہیکہ پیشرو حکومت نے رقم ہڑپ کی ہے تو پھر اس میں وہ کیا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا تھا کہ کیا آپ کے کوئی رشتہ اٹلی میں رہتے ہیں؟ مودی نے کہا تھا کہ انہوں نے کبھی اٹلی نہیں دیکھا اور کبھی وہاں نہیں گئے اور نہ کسی سے ملاقات کی۔ اگر کوئی اٹلی نژاد ملزم ہیں تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ سونیا گاندھی نے نریندر مودی پر تنقید جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ۔ این ڈی اے کو اس لئے خوف ہے کیونکہ کانگریس اقلیتوں، غریب، کسانوں، دلتوں اور خواتین کے حقوق کیلئے آواز اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے پہلے نریندر مودی آپ کو امیدیں اور وعدوں کے ذریعہ ووٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر وزیراعظم بنتے ہی عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کا ایک اور کارنامہ یہ ہیکہ اس نے جمہوریت کی جڑیں کمزور کردی ہیں۔ جمہوری طور پر منتخبہ حکومتوں کو غیر قانونی و غیردستوری طور پر معزول کیا جارہا ہے۔ پارلیمانی روایات کو ختم کیا جارہا ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

کرگل میں جشن بعثت رسول(ص)، ایران سے خصوصی مہمانوں کی شرکت

کرگل میں جشن بعثت رسول(ص)، ایران سے خصوصی مہمانوں کی شرکت+ تصاویر

 

  • News Code : 752600
  • Source : ابنا خصوصی
خصوصی مہمان نے کرگلی قوم کو ولایت مداری ہونے پر مبارک باد پیش کی اور ولی الامر المسلمین کی سرزمین سے پیغام سلام پہونچایا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔  ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے شہر کرگل میں سالہاے گذشتہ کی طرح اس سال بھی بسیج روحانیون امام خمینی میموریل ٹرسٹ کرگل کے اہتمام سے جامع مسجد کرگل میں جناب حجة الاسلام آقائی سید حسین میر واعظ ٹاون کی صدارت اور مولانا سجاد کلیم کی نظامت میں برگذار ہوئی اس محفل میں اسلامی جمہوری ایران سے آئے ہوے دو اسلامی اسکالر و سماجی کارکن نے بھی شرکت کی محفل جشن صبح دس بجے  جناب سجاد طالب علم دارالقرآن منجی گوند کی تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوئی  اس کے بعد استاد مطہری اسکول فوکر جناب شیخ مسلم صادقی نے نعت رسول مقبول پڑھی اور اس کے بعد جناب ایم ایل اے کرگل و آئی کے ایم ٹی کے بنیادی ممبر جناب الحاج  اصغر علی کربلائی نے تقریرکی۔ کربلائی صاحب پانچ مہینہ کے بعد مومنین سے ملے تھے اور مومنین اُن کی دلربا و سبق آموز تقریریں سُننے کے خواہاں تھے ۔ کربلائی صاحب نے بعثت ومعراج کے فلسفہ پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوے مومنین کو اہداف بعثت کا تذکرہ کیا  اُنہوں نے کہا حضور اکرم ۖ اپنے قوم کو بیداری  کا درس دینے کیلئے مبعوث ہوے تھے ۔ حضوراکرم ۖ  کا اولین ترجیحی کام دین وقوم سے ہمدردی ہے ۔جس کی بنا پر سارے عالم کے مستضعفین کے دل جیتنے  میں کامیاب ہوے ۔کربلائی صاحب نے ہمدردی کے نمونہ میں جان ومال فدا کرنے والے افردا کی مثال پیش کی اور مومنین سے  مالی امداد اور خمس و زکواة کی آدیگی کا مشورہ دیا ۔ جناب ا یم ایل اے نے امام خمینی میموریل ٹرسٹ کی بہترین کارکردہ گی کا بیان کرتے ہوے کہا کہ آج کرگلی قوم کا نام پورے ہندوستا ن بلکہ ہندوستان سے باہر بھی ایک بیدار اور غیور قوم کے نام سے جانا جاتا ہے تو یہ صرف آئی کے ایم ٹی کے کارکنوں کی کارکردہ گی کا اثر ہے ۔ اس کے بعد مہمان عزیز جناب حجة الاسلام آقائی برائتی نے غیور قوم  سے خطاب کیا ۔ مہمان نے کرگلی قوم کو ولایت مداری ہونے پر مبارک باد پیش کیا اور ولی الامر المسلمین کی سرزمین سے پیغام سلام پہونچایا ۔آقائی برائتی نے کہا کہ میں نے کرگل کا نام بارہا سنا  تو تھا لیکن دیکھا کھبی نہیں تھا اور دل ہی دل میں کرگلی قوم سے ملنے کا عشق بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ اور آج خدا لاکھ لاکھ شکر کرتا ہوں کہ میرا  اپنا آرزو پورا ہوا ۔ مہمان عزیز نے قوم کرگل کو امام خمینی کے سچے عاشق ہونے پرمبارک باد پیش کیا ۔اُنہوں نے کہا کہ امام اُمت نے حضور اکرم ۖ کی طرز زندہ گی پر زندہ گی گذاری اور جناب رسالت ماب کی طرح یتیمی میں قوم کا علمدار بننے کا شرف ملا ۔امام اُمت کا عقیدہ یہ تھا کہ جو بھی اللہ کیلئے کام کرے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے ہیں۔ مہمان عزیز نے امام حسین کی اسلام کی تئیں دی گئی قربانیوں کوہمارے لیئے نمونہ عمل بتایا گیا اور زور دار آوازوں میں لبیک یا حسین لبیک یا زھراء لبیک یا زینب لبیک یا خمینی لبیک یا خامنائی کا نعرہ لگایا جس کا جواب اہل محفل نے یک زبان ہوکر دیا ۔ اس کے بعد صدر محفل نے تمام حاضرین محفل اور مہمانوں کا شکریہ آداء کیا صدر محفل نے آئی کے ایم ٹی کے مختلف شعبہ جات ۔ بسیج امام کے جوانوں۔ بسیج زینبیہ ، بسیج روحانیون ، باقریہ ، مطہری ، جامعہ امام خمینی، جامعہ فاطمہ زھراء ، دارالقرآن زینبیہ اور کیچن کے مسولین سمیت تمام لوگوں کی دنیوی و اخروی ترقی کے بارے میں دعا کی محفل کے بعد مہمانوں نے بسیج روحانیون سے خصوصی ملاقات کی جس میں مہمان عزیز نے علما کو سب سے زیادہ معاشرہ میں رہ رہے جوانوں کے ساتھ دلچسپی لینے کی ہدایت دی اور کہا جوان نسل کی اگر تر بیت ہوجاے تو وہ ایک معاشرہ کو تبدیل کر دیتا ہے امام اُمت نے جوانوں کی مدد سے ہی ایران کو اسلامی بنادیا۔ عراق کے توسط  اور عرب کی مددسے مغربی ممالک نے ایران پر دباو ڈالنے کی جب کوشش کی تو جوانوں نے ہی اسلام اور ایران کو بچایا تھا آج ہم روحانیون کو بھی نسل جوان کے ساتھ بہت ہی قریب آنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد مہمانوں نے دارالقرآن زینبیہ کے بچوں سے ملاقات کی اور پھر باقریہ کے ممبران اور مطہری کے ممبران سے ملاقات کی ان ملاقاتوں کے بعد ایران سے آئے ہوئے مہمانان بہت ہی حیران ہوئے اور داد دینے لگے۔ کہا کہ ہم آئی کے ایم ٹی کے ان کار کردیوں کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے ہیں اور واقعا یہ ایران ثانی ہے کہ جس میں کام بھی ہوبہو ایران کی طرح چل رہا ہے اس کے بعد مہمانوں کی ملاقات جناب سرپرست اعلی ٰشیخ محمد حسین ذاکری اور جناب الحاج اصغر علی کربلائی سے ہوئی ۔ اور آخر میں بسیج امام کے جوانوں سے ملاقات ہوئی ۔ جس میں بسیج کو خلوص نیت کے ساتھ مزید فعالیت انجام دینے کی ہدایت دی اور آئی کے ایم ٹی کی فعالیات کو خصوصی طور ایران کے لوگوں، بزرگوں، سماجی کارکنوں اور بالاخص ولی الامر المسلمین کے دفتر میں بیان کرینگے ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

کشمیر میں 3 عسکری پسند ھلاک

مقبوضہ کشمیر میں 3 عسکری پسند جاں بحق، نماز جنازہ میں ہزاروں شریک

 

  • News Code : 752788
  • Source : islamtimes
Brief

تینوں عسکری پسندوں کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جبکہ یہاں ٹہاب گاﺅں میں فورسز اور نوجوانوں کے مابین کل دن بھر زبردست جھرپیں ہوئیں جن میں 44 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا ۔ کی رپورٹ کے مطابق پنجگام پلوامہ میں گزشتہ شب قابض فورسز اور عسکری پسندوں کے مابین ایک مختصر تصادم میں تین جنگجو جاں بحق ہوئے جن میں حزب المجاہدین کے دو اور لشکر کا ایک جنگجو شامل ہے۔ جبکہ ایک پولیس اہلکار بھی زخمی ہوا۔ تینوں عسکری پسندوں کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جبکہ یہاں ٹہاب گاﺅں میں فورسز اور نوجوانوں کے مابین کل دن بھر زبردست جھرپیں ہوئیں جن میں 44 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پورے پلوامہ ضلع میں مجاہدین کی شہادت پر مکمل ہڑتال رہی جبکہ ریل سروس بھی بند رہی۔ جس دوران تمام دکانیں بند رہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک غائب رہا۔ صبح دس سے چار بجے تک مواصلاتی نظام بھی بند کیا گیا۔

ادامه مطلب...
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

کشمیر میں جھڑپیں

 
 
جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہفتہ کی علی الصبح جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین ہونے والی ایک شدید جھڑپ میں حزب المجاہدین (ایچ ایم) سے وابستہ تین جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔
جنگجوؤں کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ سیکورٹی فورسز کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے جنہیں منتشر کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔
جھڑپ کے مقام پر گرینیڈ پھٹنے سے ایک کمسن لڑکا زخمی ہوگیا ہے۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

TIPU SULTAAN

Sat 07 May 2016, 17:56:24
 
عبدالرافع رسول
ہربرس 5مئی کو یوم شہادت ٹیپو سلطان کے طورپر منایاجاتاہے۔ یہ وہ شیردل ،جری اوربہادرمسلمان حکمران تھا کہ جو امت مسلمہ کونصیحت کرتے ہوئے گویاہوئے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی 1929 میں آپ نے شہید سلطان کی ترقی درجات کے لئے دعاکی غرض سے شہیدکی قبرکے سرہانے کی جانب کھڑاہوئے تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔اس موقع پر آپ نے فرمایا!ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کے اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا۔اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو ٹیپو سلطان شہید کو دیکھا جاسکتا ہے۔ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھابلکہ حقیقی معنوں میں اقبال کا ایک مردِ مومن تھا۔ عالِم بھی تھا، عابد بھی۔ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین منتظم بھی۔ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما اور قائد بھی۔ برصغیر کی تاریخ میں ٹیپو سلطان کو ایک لازوال اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کی تاریخ بمشکل اس اولوالعزم سلطان کی نظیر پیش کر سکے گی۔جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی، اس نے دو اہم کام کئے۔ ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین تودوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر پوری توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے تو پھر ہندوستان پر قبضہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے بھی مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔
ٹیپو سلطان کی حیات ایک سچے مسلمان حکمران کی زندگی تھی۔ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو’’ مملکت خدادادمیسور‘‘ کا نام دیا ۔حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے ۔باوضو رہنا اور تلاوت قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے ۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے ۔ ہر شاہی فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظم کیا ۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹنم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غدار میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹنم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گیا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو ہلاک کیا اور سرنگاپٹنم کے قلعے کے دروازے پر 5 مئی 1799 میں سرنگا پٹنم، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ بنگلور، ہندوستان میں 20 نومبر 1750 میں حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی۔ٹیپوبھی اپنے والدبزرگوارکے نقش قدم پرچلے اورآپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لئے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے ۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔لیکن المیہ یہ ہواکہ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کے لئے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔
ٹیپو سلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کے زوال کے بعد انگریزوں کے مقابلے کے لیے کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ ملک میں ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ٹیپو سلطان ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی شہاد ت کے بعد ہی ان کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ نکلا کہ ’’ آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔ ٹیپو سلطان کے عہدِ حکومت اور انتظامِ ریاست کا بغور مطالعہ کیا جائے توپتاچلتاہے کہ ٹیپو سلطان نے اپنے عہد حکومت میں زندگی کا کوئی لمحہ اطمینا ن اور چین سے نہیں گزارا۔ یہ سارا عرصہ جنگی معرکوں میں گزرا جو مہلت ملی اس میں وہ اپنے زیرِ اقتدار علاقوں میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے، نہروں اور تالابوں اور سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنیدجیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ میدان جنگ کے نقشوں کو مرتب کرتا،انگریزسامراج کے خلاف لڑائی کی منصوبہ بندی کرتا اور اپنے عمال حکومت، فوجی سالاروں اور قلعہ داروں کو ہدایات جاری کرتا۔ اس کی شہادت کے بعداس کے ذخیرے سے ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات اس کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس فرمانرو ا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شہزادگی سے شہادت تک مسلسل خوفناک لڑائیوں میں گزرا، اسے ان معاملات پر توجہ دینے کا وقت کیوں کر ملتا تھا۔ حق یہ ہے کہ سلطان حکومت کو خدا کی طرف سے امانت سمجھتا تھا اور اس امانت کا حق ادا کرنے کی جیسی عملی مثال اس نے پیش کی، اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔
        ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعداپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں انہوں نے اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات، لسانی و طبقاتی عصبیت کا خاتمہ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا۔ملک کے قدیم طرز حکمرانی کو یکسر بدل دیا۔سلطنت کے امور میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے ایک مجلس شوری قائم کی جس کا نام’’ مجلس غم نباشد‘‘تھا۔ٹیپوسلطان نے تخت نشین ہونے کے بعد دو نئے آئین بنائے۔ ایک فوج کے لیے جس کا نام ’’فتح المجاہدین‘‘ تھا اور دوسرا عوام کے لیے جس کا نام ملکی آئین تھا۔ سرنگا پٹنم میں’’ جامع الامور‘‘ کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کی جہاں بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حکومت کی طرف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو بھاری مشاہرہ پر یہاں مقرر کیا گیا تھا۔
        ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے۔ مثلا بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ا وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کردیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے مثلا محمدی، صدیقی، فاروقی، عثمانی ،حیدری وغیرہ۔ نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیں، ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے ایک نئی تدبیر سوچی۔ ہر مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت اگانے کی ذمہ داری سونپی۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت تجویز پاتا جس کے لیے کم محنت و مہلت درکار ہوتی اور سنگین جرم کے لیے ایسا درخت اگانے کی ذمہ داری جس کے لیے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔ سلطان معمولی سے معمولی مسئلہ میں بھی پور ی توجہ ظاہر کرتا تھا۔ علوم و فنون، طب، تجارت، معاملات مذہبی، تعمیر، فوجی محکمات اور بے شمار دوسرے امور پر سلطان یکساں مہارت سے قطعی رائے دیتا تھا۔
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں باآسانی سوراخ کیا جاسکتا تھا۔ دنیا میں میزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا۔ حتی کے امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانہ میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔سلطان کی بری اور بحری فوجوں کا انتظام قابل داد تھا، فوج کے محکمہ میں گیارہ بڑے بڑے شعبے تھے، سلطنت کے کل رقبہ کوکئی فوجی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس نے میں امرا البحر کی ایک جماعت قائم کی۔ جس میں گیارہ اراکین تھے۔ ان اراکین کا لقب میریم رکھا گیا تھا۔ ان اراکین کے ماتحت  امیر البحر تھے۔ بحری فوج کے متعلق بیس جنگی جہاز کلاں اور بیس چھوٹے جنگی جہاز تھے۔ سلطان کو فن جہاز سازی سے بھی شغف تھا۔ وہ جہازوں کے نقشے خود تیار کرتا تھا۔ جہازوں کے پیندوں کے واسطے ہدایت کی گئی تھی کہ تانبے کے پیندے لگائے جائیں تاکہ چٹانوں سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔ جہاز سازی کے لیے لکڑی کا جنگل بھی نامزد کردیا گیا اور سب مدارج کے افسروں کی تنخواہوں کی بھی صراحت کردی گئی۔ فوجیوں کی باقاعدہ تربیت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے اور پوری فوج کو ازسرنو منظم کیا گیا۔
ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبہ اور قلعہ کے چار دروازے مقرر کیے جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میں بغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رویدادپر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوں کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔ عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گاں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائیکورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کررکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگاپٹنم(دارالحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔  میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔
ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ بعض بری روایات کو روکنے کے لیے ہندئووں کے مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ جاگیرداریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں او ر کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپوسلطان نے احکام جاری کردیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے،اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کئے۔ دور دور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کئے۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور سلطنت میں تیار کردہ چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ دوسری طرف ہزاروں بے روزگاروں کے مسائل بھی اس سے حل ہوئے۔
اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعدٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خدادادمیسور میں آ کر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیر سرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہوسکتا تھا۔ وسط ایشیا کی ریاست آرمینیا سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو مالابار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میسورمیں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔
سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا، وہیں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کئے۔ تمام سلطنت میں، رعایا، تاجروں اور کاشتکاروں کے لیے بغیرسودبنک جاری کئے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوشحال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریزجب اس علاقے میں داخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔عربی کا ایک مقولہ ہے کہ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن کرے۔ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کے بے انتہا تعصب کے باوجود کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے۔کہ ’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے۔جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے اس پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بیکار نہیں پائی گئی۔ رعایا اورفوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے‘‘۔ بقول اقبال:
                        رفت سلطاں زیں سرائے ہفت روز
                        نوبتِ او در دکن باقی ہنوز
خیال رہے کہ بھارت کی ہندوانتہاپسندوں کی شرپسندانہ کارروائیاں جہاں بدستورجاری ہیں۔وہیںگذشتہ تین ماہ قبل شیرمیسورٹیپوسلطان کی سالگرہ کے موقع پربھارتی ریاست کرناٹک میں تقریب منعقدہورہی تھی جس پرہندوانتہاپسندوں نے دھاوابول کرکھلبلی مچانے کی نامرادکوشش کی تھی۔بھارتی صوبے کرناٹک کی کانگرسی حکومت نے ٹیپوسلطان کی سالگرہ کو سرکاری طورپرمنانے کا اعلان کیاتھا،جس پر آرایس ایس اوربی جے پی سیخ پاہوئی انہوں نے ان تقریبات کو روکنے کا اعلان کردیا،لیکن اس کے باوجودجب کرناٹک کے قصبے میڈیکری میں مسلمانوں نے شیرمیسور ٹیپوسلطان کی سالگرہ کی تقریب کا انعقاد کیا،تواس پرویشواہندوپریشد اورآرایس ایس کے بلوائیوں نے حملہ کردیا،حملہ آوروں نے تقریب کے شرکا ء پرپتھراو کیا۔مارکٹائی کے اس واقعے کے بعدعلاقے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

کائنات میں زمین جیسے تین اور سیاروں کی دریافت

 
 
 
کیا جس دنیا میں ہم انسان بستے ہیں وہ اس پوری کائنات میں ایک واحد جگہ ہے جہاں زندگی اپنا مسکن بنا سکی ہے یا پھر کائنات میں زمین کے علاوہ اور بھی عالم موجود ہیں جہاں حیات ممکن ہے یا پھر وہاں خلائی مخلوق بستی ہے جو اس بات کے منتظر ہیں کہ ہم انھیں تلاش کریں۔
 
اس حوالے سے آج کی خلائی تلاش 'کوسمک پلورلزم' کے نظریے کے امکان کو تسلیم کرتی ہے کہ اگر کوئی سیارہ کسی سورج نما ستارے سے اس قدر مناسب فاصلے پر ہو جو انسانوں کو حاصل ہے اور وہاں زندگی کے لیے درکار بنیادی اجزاء آکسیجن پانی وغیرہ بھی دستیاب ہوں اور اس کے اطراف ایک ایسا کرہ ہوا ہو جو حیات کو تابکاری شعاعوں سے بچا سکتا ہے تو پھر سالمات کا ایک ایسی ترکیب وترتیب میں آ جانا ناممکن نہیں ہے جو زمین میں موجود جانداروں کی زندگی کو ممکن بناتی ہے۔
 
ایک اہم تحقیق کے نتیجے میں بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے زمین کی طرح کے ممکنہ طور پر رہائش کے قابل تین سیارے دریافت کئے ہیں جن پر اجنبی مخلوق کی آبادی کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
 
اس تازہ ترین تحقیق کے نتائج کا اعلان پیر کو کیا گیا ہے۔ جس میں سائنس دانوں نے نظام شمسی سے باہر نو دریافت سیاروں کے بارے میں بتایا کہ یہ سیارے ایک چھوٹے اور سورج سے نسبتاً ٹھنڈے ستارے کے گرد اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔
 
ناسا کے ماہرین پہلے ہی یہاں زندگی کی علامات تلاش کرنے کے لیے اسپٹزر خلائی دوربین کا استعمال کر رہے ہیں۔
 
ناسا کے محققین کی ایک ٹیم آئندہ ہفتے ایک طاقتور دوربین ہبل کے ذریعے ان سیاروں کا مطالعہ شروع کرے گی۔
 
فلکیات کا مشاہدہ کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ یہ نئی دنیا نظام شمسی سے باہر زندگی کی علامات کی تلاش کے لیے ایک مثالی دنیا ہو سکتی ہے۔
 
بیلجیئم کی یونیورسٹی ڈی لییج، امریکی خلائی ادارے ناسا اور فلکیات کے دیگر تربیتی مرکز سے وابستہ سائنس دانوں نے بین الاقوامی تحقیقی جریدہ 'نیچر ' میں اپنے مطالعے کے نتائج جاری کئے ہیں۔
 
مطالعے کی قیادت کرنے والے لییج یونیورسٹی سے وابستہ آسٹروفزکس کے پروفیسر مائیکل گیلون نے این پی آر کو بتایا کہ ''اگر ہم کائنات میں کہیں اور زندگی تلاش کرنا چاہتے ہیں تو یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں سب سے پہلے نظر ڈالنی چاہیئے''۔
 
انھوں نے کہا کہ یہ دریافت انتہائی اہم ہے ناصرف اس لیے کہ ان سیاروں کی خصوصیات زمین جیسی ہے بلکہ یہ زمین سے نسبتاً قریب ہیں اور ہمارے سیارے سے 40 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اب تک دریافت کیے جانے والے پہلے سیارے ہیں جو ایک کم روشنی والے ستارے کے گرد اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

ziyada paani nuqsaandeh hai

 

انسانی جسم کو پانی کی مقررہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اور ماہرین صحت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرمیوں میں جسم کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے پانی کا استعمال انتہائی اہم ہے لیکن ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ روزانہ جسم کو پانی کی کتنی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت سے زیادہ پانی پینا صحت کے لیے کس حد تک نقصان دہ ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ اتنی مقدار میں پانی پینا چاہیے جتنی جسم کو ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جس طرح پانی کی کمی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے بالکل اسی طرح پانی کی زیادتی بھی انتہائی نقصان دہ ہوسکتی ہے لہٰذا زیادہ پانی پینے کے حوالے سے کچھ نقصانات بھی ہیں جن سے آپ کو آگاہ کیا جارہا ہے۔
یادہ پانی پینے کے خون کی گردش پر اثرات:
انسانی جسم انتہائی زیادہ پانی کی مقدار کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہوتا ہے لہٰذا زیادہ پانی نظام خون کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے سر درد اور متلی سمیت پٹھوں میں درد کی وجہ بنتا ہے۔
طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانی کی ضرورت ہر فرد کی عمر، جنس، قد، وزن اور روزمرہ کے معمولات پر منحصر ہوتی ہے لہٰذا کسی دوسرے کی زیادہ پانی پینے کی عادت کو نہیں اپنانا چاہیے۔
پانی کی زیادتی گردوں کے لیے نقصان دہ:
انتہائی زیادہ پانی کا استعمال گردوں کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے کیونکہ جب آپ حد سے زیادہ پانی کا استعمال کریں گے تو گردوں کو زیادہ کام کرنا پڑے گا جس سے گردوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

modi mozee hain

 

مغربی بنگال،26اپریل(ایجنسی) کانگریس صدر سونیا گاندھی نے منگل کو کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی جمہوریت اور pluralism کے لئے 'خطرہ' ہیں اور پہلے نہیں ہوئی چیزوں کے لئے گزشتہ حکومتوں پر ٹھیکرا پھوڑنا دونوں کی 'عادت 'ہے.
یک انتخابی ریلی میں سونیا نے کہا، 'مودی اور ممتا کا اتحاد بنگال کے لئے خطرہ ہے. یہ دونوں طاقتیں، باطل سے بھری ہوئی ہیں اور جمہوریت کے لئے خطرہ ہیں. مودی حکومت جس طرح برتاؤ کر رہی ہے، وہ ہمارے ملک کی اصل روح کے لئے خطرہ ہے. اس سیکولر ازم، جمہوریت اور ہمارے ملک کی صدیوں پرانی ثقافتی ورثہ کے لئے خطرہ ہے. '
کانگریس صدر نے یہ بھی کہا کہ ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس نے مغربی بنگال کے لوگوں کو جھوٹی امیدیں دی تھی. انہوں نے کہا، 'پانچ سال پہلے، ترنمول کانگریس نے آپ کو جھوٹی امیدیں دے کر اور جھوٹے وعدے کرکے آپ کے ووٹ مانگے تھے

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

taddude azwaaj

 
تحریر: غوث سیوانی،

نئی دہلیمسلم پرسنل لاء بورڈ نے پچھلے دنوں حکومت سے مطالبہ
کیا کہ وہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت سے باز آئے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ عدالتوں کے ذریعے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی جا رہی ہے اور وہ مرکزی سرکار سے اپیل کرتا ہے کہ شریعت کے قانون کا وجود برقرار رکھنے کے لئے پچھلی حکومتوں کے رخ پر قائم رہا جائے۔ بورڈ کے رکن ظفریاب جیلانی نے بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی تقریبا چار گھنٹے تک جاری رہی مٹینگ کے بعد منعقد پریس کانفرنس میں کہا کہ عدالتوں کے ذریعے پرسنل لاء میں دخل اندازی کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں پچھلے دنوں طلاق سمیت کئی کیس آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بورڈ کی حکومت سے اپیل ہے کہ شریعت میں کسی طرح کی مداخلت نہ ہو۔ ماضی میں جس طرح سے حکومتوں کا شرعی قانون کو لے کر مثبت رخ رہا ہے، اسی پر اب بھی حکومت قائمرہے۔ جیلانی نے کہا کہ اجلاس میں دستورشریعت کو بچانے پر بھی بحث ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اسکولوں میں سوریہ نمسکار وغیرہ کا چلن بنانے کیکوششیں ہو رہی ہیں، جسے مسلمان برداشت نہیں کریں گے۔بورڈ اس کیلئے بیداری مہم چلا رہا ہے ۔جیلانی صاحب نے جو کچھ کہا اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ بورڈ کی طرف سے اس قسم کے اعلانات آتے رہے ہیں مگر اس قسم کی باتیں مسئلہ کا حل نہیں ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے بزرگ علماء نہ تو اصل مسئلہ کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی اس کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ حکومت اور کورٹ مسلمانوں کو نہیں بلاتے ہیں بلکہ پریشان حال مسلمانوں کو جب کوئی حل نہیں نظر آتا تواپنے مسئلے کے حل کے لئے حکومت اور کورٹ کی طرف رجوع کرتے ہیں جہاں ہونے والے فیصلے کو مسلم پرسنل لاء بورڈ اور علماء کی طرف سے غیراسلامی قرار دیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ایک عورت اپنی پوری زندگی ایک مرد کے پہلو میں گزار دیتی ہے مگر کسی معمولی بات پر وہی شوہر اسے تین طلاقیں دے کر اچانک سڑک پر ڈال دیتا ہے تو اس کا حل نکالنے کےلئے نہ مسلم پرسنل لاء بورڈ سامنے آتا ہے اور نہعلماء کرام آگے بڑھتے ہیں۔ ایسے میں اگر کورٹ کہتا ہے کہ اس کا سابقہ شوہر اسے تازندگی گزارہ بھتہ دیتا رہے تو اسے مسلم پرسنل لاء میں ،مداخلت قرار دے دیا جاتا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ اگر بورڈ کے پاس مسئلے کا کوئی حل ہے تو دنیاکے سامنے رکھے اور اگر حل نہیں ہے تو خاموشی کے ساتھ عدالت کے فیصلے کو قبول کر لے۔ اگر انصاف دلانے کے لئے مسلم علماء اور اسلامکے نام لیواآگے نہیں آئینگے تو کورٹ کو سامنے آنا ہی پڑے گا۔ مسلمان خواتین کے ساتھ ناانصافی ان دنوں عام ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبران میں بہت سے معزز حضرات ایسے مل جائیں گے جنھوں نے اپنی بہنوں کا حق وراثت مارا ہوگا اور اپنے باپ کی وراثت میں سے ملنے والا شرعی حق اسے نہیں دیا ہوگا، ایسے میں اسلامی قانون اور مسلم پرسنل لاء کی دہائی دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ آج کتنی مسلمان خواتین کو وراثت میں حصہ ملتا ہے؟ کئی فیصد مسلمان عورتیں اپنی مرضی کی زندگی جینے کےلئے آزاد ہیں؟ کتنی مسلمان عورتیں ہیں جو خود کفیل ہیں اور اپنے روزگار کے لئے مردوں پر انحصار نہیںکرتیں؟ کتنی مسلمان لڑکیاں ایسی ہیں جنھیں ان کےوالدین، بیٹوں کی طرح اچھے اسکول میں پڑھاتے ہیں؟کتنی لڑکیوں کی شادی طے کرنے سے پہلے ان کی مرضی جاننے کی کوشش ہوتی ہے؟مسلم خواتین کے سرپر طلاق کی تلوار کیوں لٹکتی رہتی ہے؟ اس طرح کے بہت سے سوال ہیں جن پر مسلمانوں کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے اور مسلم پرسنل باروڈ کو ان کا حل پیش کرنا چاہئے بجائے کورٹ اور حکومت سے مقابلہ آرائی کرنے کے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمان خواتین کو اسلام نے برابری کا حق نہیں دیاکیونکہ جس زمانے میں خواتین کی زندگیجانوروں سے بدتر تھی اور انھیں جینے کا حق بھی مشکل سے ملتا تھا ،اس دور میں اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق نسواں کی بات کی اورصنفی مساوات کا نعرہ بلندکیا۔یہ الگ باتہے کہ آج جب بعثت نبوی کو تقریباً پندرہ سو سال ہونے کو آئے ہیں،مسلم معاشرہ ،خواتین کو ان کے جائز حقوق نہیں دے پایا ہے۔ اس معاملے کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلویہ ہے کہ مسلم خواتین کی حلق تلفی عموماً اسلام کے نام پر ہی کی جاتی ہے اور مذہب کا حوالہ دے کر ان کو مردوں کے مساوی حقوق نہیں دیئے جاتے۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے جب کیرل کے ایک معروف عالم دین شیخ ابوبکرمسلیار کا بیان میڈیا میں آیا تھا کہ اسلام میں مساوات مردوزن کی بات درست نہیں ہے۔ خواتین کا کام بچے پیدا کرنا ہے اور ان کے اندر عقل وشعور کی کمی ہوتی ہے۔ یہ بات صرف شیخ ابوبکر مسلیارتک محدود نہیں ہے بلکہ ’’ اسلامی مملکت ‘‘سعودی عرب میں تو سرکاری پالیسی کا حصہ بھی ہے صنفی امتیاز۔ حالیہ دنوں میں خواتین کو پہلی بار میونسپل انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ دینے کا حق دیا گیاجسے وہاں کی مسلم خواتین کی سب سے بڑی آزادی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اس انتخاب میں خواتین امیدوار بھی شامل ہوئیں جن میں سے ایک نے مکہ کے علاقے کا انتخاب بھی جیت لیا۔حالانکہ آج بھی سعودی عرب میں خواتین گاڑی ڈرائیو نہیں کرسکتیں، بغیر کسی مرد رشتہ دار کے کہیں سفر نہیں کر سکتیں، اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتیں، اس کے لئے ان کے اہل خانہ کی رضامندی ضروری ہے۔وہ بغیر اپنے اہل خانہ کی اجازت کے باہر جاکر کام بھی نہیں کر سکتیں۔اگر وہ عوامی مقامات پر جاتی ہیں تو انھیں خاص قسم کا برقع پہننا انتہائی ضروری ہے۔یہاں خواتین بہت سے ایسے کام نہیں کرسکتی ہیں جن کی اجازت مردوں کو ہے۔اسلام نے اجنبی مرداور عورتکو تنہائی میں ملنے سے منع کیا ہے مگر یہاں توعوامی مقامات،ہوٹلوں اور پارکوں میں بھی وہ مردوں سے باتیں نہیں کرسکتیں اور آفس وکام کاج کے مقامات پر ان کا ملنا جلنا ممنوع ہے۔ یہ کس قدردوہرا معیار ہے کہ ایک طرف تو مسلمان یہ کہتے ہیںکہ اسلام کسی صنفی امتیاز کے خلاف ہے اور وہ مردوں ،عورتوں میں کسی قسم کا بھید بھاؤ نہیںکرتا ،دوسری طرف مسلم معاشرہ کی زمینی سچائی کچھ الگ ہے اور اسلام کو سرکاری مذہب ماننے والے مسلم ممالک میں آج تک خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ملے۔ مسلم ملکوں میں آج بھی یہبحث چلتی ہے کہ عورت ملک کی صدر یا وزیراعظم بن سکتی ہے یا نہیں؟ سعودی عرب تو چھوڑیئے جب مرحومہ بے نظیر بھٹوپاکستان کی وزیر اعظم بنیں تو یہاں بھی بحث تیز ہوگئی کہایک عورت ملک کی وزیر اعظم کیسے بن سکتی ہے؟ جس ملک میں قدم قدم پر شراب خانے، طوائف خانے اور سنیماہال موجود ہیں اور وہاں اسلامی ملک میں ان کی موجودگی کسی کو غیراسلامی نظر نہیں آتی ،وہیں ایک عورت کے جمہوری طریقے سے ملک کے سب سے اونچے سرکاری منصب پر پہنچنے پر اسلام کا حوالہ دے کر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ صنفی تفریق کیوں؟قرآن اور سیرت نبوی کی تعلیمات میں خواتین کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاؤ نہیں کیا گیا ہے۔کہیں نہیں کہا گیا کہ مردوں اورخواتین میں کسیقسم کا فرق ہے۔ قرآن کریم نے صاف طور پر کہا ہے کہ : ’’اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں )بیویوں( سے تمہارے لیے بیٹے، پوتے اور نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا تو کیا پھر بھی وہ )حق کو چھوڑ کر( باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں‘‘)القرآن، النحل، 16 : 72(’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں )کی تخلیق( کو پھیلا دیا۔‘‘)القرآن، النساء، 4 : 1(قرآن کریم صاف طور پر کہتا ہے کہ مردوعورت کو ایک جان سے پیدا کیا جو صنفی مساوات کی واضح دلیل ہے،ایسے میں صنفیتفریق کی بات قرآنی احکام کے خلاف ہے مگر مسلم معاشرے میں جاری ہے۔اسی طرح اسلام نے تعلیم کے معاملے میں بھی حکم دیا کہ’’ہرمسلم مردوعورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے‘‘ مگر تمام سرکاری اور غیرسرکاری رپورٹیں کہتی ہیں کہ مسلمان مردوں کے مقابلے مسلم خواتین میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔یہ بات صرف بھارت اور پاکستان کی سطح پر ہی نہیں ہے بلکہ کم وبیش ساری دنیا میں مسلم معاشرے کی یہی صورت حال ہے۔بھارت میں کئے گئے ایک سروے میں یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی کہ زیادہ تر مسلم خواتین اقتصادی اور سماجی طورپر کافی پسماندہ ہیں۔سروے کے مطابق 55.3 فیصد مسلم خواتین کی 18 سال سے پہلے ہی شادی ہو گئی اور انھیں گھریلو تشدد کا بھی سامنا کرناپڑا۔سروے میں جائیداد کے معاملے میں بھی مسلم خواتین کی پسماندگی اجاگر ہوئی، اعداد و شمار کےمطابق 82 فیصد خواتین کے نام کوئی جائیداد نہیں ہے۔ 53 فیصد خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ زیادہ تر خواتین کی تعلیم بھی تقریباً صفر تھی۔سوال یہ ہے کہ جب اسلام نے خواتین کے ساتھ تشدد کی اجازت نہیں دی ہے اور مردوں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ عورتوں کو ماریں،پیٹیں، ایسے میں انھیں تشدد کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اس کا مطلب صاف ہے کہ مسلمان مردوں نے اس گائیڈ لائن کی پابندی نہیں کی جو اللہ اوررسول کی طرف سے ان کے لے بنائی گئی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل )یعنی بیوی بچوں( کے لیے اچھا ہے۔‘‘ )ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب(خواتین کی حق تلفیمسلم سماج میں آج بھی یہ قبیح طریقہ رائج ہے کہ بیٹیوں کو وراثت میں حقدار نہیں بناتے اور بھائی ،اپنی بہنوں کا حق مارلیتے ہیں۔ایک حالیہ سروے میں پایا گیا کہ 82فیصدہندوستانی مسلم خواتین کے نام کوئی جائیداد نہیں ہے۔یہ بالکل وہی صورت حال ہے جو اسلام سے قبل عرب کے معاشرے میں تھی۔ بعثت نبوی سے قبل عورت کو کسی چیز کی مالک بننے کا حق حاصل نہ تھا۔ اسےکسی قسم کی وارثت نہ ملتی تھی، صرف مردوں کو وارث بننے کا حق حاصل تھابلکہ عورتوں کو بھی مرد آپس میں مال کی طرح بانٹ لیا کرتے تھے۔اسلام نے انھیں وراثت کا حقدار بنایا ۔ارشاد ربانی ہے:’’اے ایمان والو! تم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوںکے )مال یا جان کے( جبراً مالک ہو جاؤ اور اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو، اْنہیں مت روک رکھنا۔‘‘)القرآن، النساء، 4 : 91(اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں مغربی عورت کی معاشی و اقتصادی حالت کا جائزہ یوں پیش کیا گیا :’’دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے، دنیا کے دوتہائی کام کے گھنٹوں میں عورت کام کرتی ہے مگر اسے دنیا کی آمدنی کا دسواں حصہ ملتا ہے۔ اور وہ دنیا کی املاک کے سوویں حصہ سے بھی کم کی مالک ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ ان خواتین کومدنظر رکھ کر تیار کی گئی ہے جن کی معاشی حالت قدرے بہتر ہے لیکن اگر صرف مسلمان عورت کی بات کی جائے تو اس کی حالت اس رپورٹ سے درجہا بدتر ہوگی۔سوال یہ ہے کہ اس کے لئے کونقصوروار ہے؟ اسلام یا مسلم معاشرہ؟مسلم خواتین کی حالتایک میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت کی ہزاروں مسلم خواتین نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کرمطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شادی پر پابندی لگائی جائے اور ’’حلالہ‘‘ کو جرم قرار دیاجائے۔ان خواتین نے برابری کے حق اور صنفی انصاف کا بھی مطالبہ کیا۔اس تحریک کی بانی ہیں ذکیہ سمن،جن کا کہنا ہے کہ اسے قبول کر لینے سے مسلم خواتین کو باوقار زندگی گزارنے میں مدد مل سکے گی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جائیداد میں بھی مسلم خواتین کو برابری کا حصہ ملے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ شریعت ایکٹ ۔1937 اورمسلم میرج ایکٹ ۔1939 میں ترمیم کر انہیں انصاف دلایا جائے۔ذکیہ سمن کاکہنا ہے کہ صنفی انصاف ہمارے آئینکا اصول ہے لہذا مسلم خواتین کو بھی مسلم مردوںکے برابر حقوق ملنے چاہئیں ۔وزیراعظم کو خط لکھنے والی خواتین کا کہنا ہے کہانہوں نے ہندوستان کی 10 ریاستوں کی 4710 خواتین پر تحقیق کر پایا کہ 92.1 فیصد خواتین طلاقکے زبانی تین بار کہنے کے طریقے پر پابندی چاہتی ہیں۔ 91.7 فیصد تعددازواج کے خلاف پائی گئیں اور 83.3 فیصد خواتین نے مانا کہ مسلم فیملی لاء میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ایک حالیہ سروے کے مطابق بھارت کی 92 فیصد مسلم خواتین کا خیال ہے کہ تین بار طلاق بولنے سے رشتہ ختم ہونے کا اصول یک طرفہ ہے اور اس پر روک لگنی چاہئے۔ خواتین نے مانا کہ طلاق سے پہلے قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جانا چاہئے اور ان صورتوں میں ثالثی ہونی چاہئے اور افہام وتفہیم کی کوشش کی جانی چاہئے۔مسلم خواتین نے سوشل میڈیا اور موبائل پیغام کے ذریعے بھی طلاق پربھی تشویش ظاہر کی۔ مسلمان خواتین کی موجودہ حالت کے لئے اسلام ذمہ دار نہیں بلکہ مسلمان ذمہ دار ہیں۔ اسلام نے خواتین کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا مگر یہ حقیقت ہے کہ مسلم معاشرہ اللہ ورسول کے احکام کو نظر انداز کرکے ان کے ساتھ بھیدبھاؤ کر رہاہے۔ اس کے لئے عام مسلمان ہی ذمہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں جنھوں نے سماجی روایتوں کو مذہب کا لبادہ پہنا دیا ہے اور اپنی تنگ نظری کو انھوں نے احکام شریعت کا نام دے دیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ خود ہندوستانی مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ کہتا ہے تو اسے خواتین کے حقوق کا بھی دھیان رکھنا چاہئے۔ وہ خود مسائل کے حل کے لئے آگے نہیں آتا اور جب ملکی قانون اس کا حل نکالتا ہے توبورڈ شور مچانے کا کام کرتا ہے، یہ رویہ نہ حکومت اور عدالت کو قبول ہوسکتا ہے اور نہ ہی سمجھدار اور پڑھے لکھے مسلمان قبول کرسکتے ہیں۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

حکومت کی دھشتگردی

 
شہر حیدرآباد میں ٹرافک پولیس کی طرف سے موٹر سیکل چلانے والوں کے لیے ہیلمیٹ کو ضروری قرار دیا گیا۔ اور اس پر عمل نہ کرنے والوں کو بھاری چلانات بھیجے جارہے ہیں۔ پولیس کانسٹیبل کے ہاتھوں میں ڈیجیٹل کیمرے دے دییے گئے جس وہ دور کھڑے فوٹو گرافی کررہے ہیں۔
ایک طرف عوام پر قانون پر عمل کرنے کے لیے پولیس سختی کرتی نظر آتی ہے تو دوسری جانب قانون کی حفاظت کرنے والے خود عمل نہیں کرتے نظر آتے ہیں۔ 
ایک ایسی ہی فوٹو سوشیل نیٹ ورکنگ پر گشت کررہی ہے جو شہر کے معظم جاہی مارکٹ چوراہا پر22 اپریل 2016 جمعہ کے روز دوپہر 2:10 منٹ پر لی گئی ہے۔ جس میں دو پولیس اہلکار بغیر ہیلمیٹ کے نظر آرہے ہیں۔
پولیس کے وہ کانسٹیبل کہاں ہے جو تصویرکشی کرتے ہیں۔ تب انکی کوئی فوٹو کیوں نہیں لی۔
پیچھلے مہینے بھی ایک پولیس اہلکار موٹر سیکل پر فون پر بات کرتے ہوئے گاڑی چلارہے تھے جو سوشیل نیٹ ورکنگ پر گشت کررہی تھی ۔ اس پر ٹرافک پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے انہیں چلان بھیجا تھا۔ 
چلچلاتی دھوپ سے عوام پہلے ہی پریشان ہے اورادھر پولیس ہیلمیٹ کے لیے سختی کررہی ہے۔ 
پولیس گرما کے موسم تک اسے رعایت دیتی ہے عوام کو کچھ راحت مل سکتی ہے۔ 
قانون پر عمل کرنا ہر شہری پر فرض ہے۔ ٹرافک پولیس کو چاہیئے کہ ہیلمٹ کے لیے عوام میں شعور بیداری مہم شروع کی جائے۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali