شاہ خراسان

وبلاگ اطلاع رسانی اخبار و احوال جہاں اسلام ، تبلیغ معارف شیعی و ارشادات مراجع عظام ۔

basit ali
epapar 2-2

epapar 2-2

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
epapar 2-1

epapar 2-1

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
مخصوص نوروز

مخصوص نوروز

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

یمن تنازعات میں مودی کا شاہ سلمان کو منہ توڑ جواب

یمن تنازعے پر مودی کا سعودی شاہ کو دو ٹوک جواب

اپریل 5, 2016 - 8:16 PM

News Code : 745388
Source : qudrat.com.pk

Brief

یمن تنازعے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر موودی جو ان دنوں ریاض میں ہیں انہوں نے کہا کہ یمن مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہونا چاہئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ ابنا ۔ کی رپورٹ کے مطابق یمن تنازعے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر موودی جو ان دنوں ریاض میں ہیں انہوں نے کہا کہ یمن مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہونا چاہئے، بھارتی وزیر اعظم کے اس بیان پر سعودی میڈیا اور سعودی شاہ بھڑگ اُٹھےاور میڈیا میں انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، سعودی میڈیا کو یمن کے حوالے سے مودی کا بیان پسند نہ آیا تو مسئلہ کشمیر کا سہارا لینا شروع کردیا سعودی اخباروں نے لکھا کہ بھارت نے آج تک کشمیر کے مسئلے کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عمل نہیں کیا تو ہم کیوں کریں۔

واضح رہے کہ سعودی صحافیوں نے پہلے ہی انکشاف کیا تھا کہ یمن سمیت مشرق وسطی ٰ میں جاری سعودی جنگ میں بادشاہ سلامت بھارت کو شامل کرنے کی پیش کریں گے، بظاہر مودی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے سعودی شاہ کی بات ٹھکرادی ہے اسی لئے سعودی میڈیا نریندر مودی کے ریاض میں موجود ہونے کے باوجود یمن معمالے کو لے بھارتی وزیر اعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے سعودی عرب کشمیر کے معمالے پر بھارت کو بلیک میل کرے اور یمن میں ساتھ دینے کے بدلے کشمیر کے مسئلے پر آل سعود کی حمایت کا سودا طے پاسکتا ہے۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
قول امیر مؤمنان

قول امیر مؤمنان

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
epapar2

epapar2

epapar2

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

بابا رام کی خرافاتی تقریر

 
کہا قانون سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، نہیں تو لاکھوں سر دھڑ سے الگ کر دیتا 
نئی دہلی۔ ۴؍اپریل:  (آئی بی این خبر) بابا رام دیو نے ایک ایسا متنازعہ بیان دے دیا ہے جو ان کی مشکلات بڑھا سکتا ہے۔ اویسی کا نام لئے بغیر بابا نے کہا کہ کچھ لوگ ٹوپی پہن کر کھڑا ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چاہے سر کاٹ دیں، لیکن بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ قانون سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، نہیں تو لاکھوں سر دھڑ سے الگ کر دیتے۔ بابا رام دیو روہتک میں منعقد خیر سگالی تقریب میں حصہ لینے پہنچے تھے۔بابا ویسے تو روہتک میں سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے کے مقصد سے منعقد ایک پروگرام میں شرکت کرنے پہنچے تھے، لیکن حب الوطنی کا سہارا لے کر بابا رام دیو نے اویسی پر نشانہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کچھ لوگ ٹوپی پہن کر یہ کہتے ہیں کہ چاہے سر دھڑ سے الگ ہو جائے وہ بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے۔ لیکن شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔ نہیں تو اگر کوئی بھارت ماتا کی توہین کرے تو لاکھوں سر دھڑ سے الگ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو مذہب بھارت ماتا کی جے بولنے کو درست نہیں مانتا ہو، وہ مذہب ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔قانون سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، نہیں تو لاکھوں سر دھڑ سے الگ کر دیتے: بابا رام دیوبابا کے اس بیان پر لالو یادو نے کہا کہ جو اس طرح کی بات بولتے ہیں وہ ہندو اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اویسی اور آر ایس ایس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہیں جے ڈی یو لیڈر کیسی تیاگی نے کہا کہ بابا رام دیو جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں وہ بغاوت کی زبان ہے۔ ان پر مقدمہ درج ہونا چاہئے۔
۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

عرض حال

٭}  عرض حال { ٭

کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر

اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

اس شعر سے آغاز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سارا ماجرا جو قلب ونظر کا دوچار سال سے آج تک دست وگریباں رہا ہے یہ شعر اسی حقیقت حال کا بی کم وبیش خلاصہ ہے،حقیقت کیا ہے؟ یہ تو کسی کو نہیں معلوم لیکن اگر وہ بھی حقیقت نہیں ہے جسے ھم نے حقیقت کا نام دیا ہے تب تو حقیقت کوئی ایسی گران بھا شۓ ہے جس تک دسترسی ھم جیسے بندوں سے محال ہے،اور اگر کسی کلام کو حقیقت رساں کہا جا سکتاہے جو جستجو یار میں صرف درباں ہوئی ہو، تو یہ نا قابل کاوش بھی اسی کا ایک حصّہ ہے جسے ایک طالب علم نے قرطاس و قلم کے حوالہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

میری لکلکی زبان کی کیا اھمیت ؟! اور ھم کونسے سخنور ہیں لیکن فیض احمد فیض کی فکر کے پیش نظر میں نے بھی یہی تجویز کیا کہ :

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے     جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک     بول ، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

ابتدائی کلمات میں بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ کائنات میں کوئی بھی علم کامل یا کمال نھائی لے کر پیدا نہیں ہوا سواۓ نفوس مقدّسہ اھلبیت اطھار علیھم السلام و انبیاءکرام  علیہم السلام کے،باقی کے ھم سب فنا کے نوالے ہیں مگر یہ کہ اپنے بقا کا سامان مھیّا کر لیں،ھر کسی کو جھالت سے علم ،کجروئ سے ھدایت ،شقاوت سے سعادت تک کا سفر طۓ کرناہے،تو کوئی بھی اپنے آپ کو یہ نہ سمجھے کہ وہ پیکر علم و شرافت ہے بلکہ ھر کسی کو نقص سے کمال تک کا راستہ چلناہے جو اس راہ میں گمراہ نہیں ہوا وھی کامیاب ہے۔

یہ چند نکتے اپنے ذھن میں رکھیں کہ میں جو کچھ لکھ رھا ہوں وہ کوئی حتمی اور واقعی نہیں ہے کیا پتہ کچھ صحیح ہو اور کچھ غلط ہو یا پھر شاید میری بات صد در صد غلط ہو کیونکہ ھم انسان ہے ھمارے اندر خطا کا امکان لازمی ہے ، میں ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنے بات بولنے کے بعد میں اس پر صحّت کا مھر مار دیتے ہیں ، میں اپنے عقل و وجدان سے بولنے کے باوجود اس میں خطا و سہو کو قبول کرتاہوں ۔

اور جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ عملی زندگی سے زیادہ سازگار ہے ، یہ وہ فکریں ہیں جو زندگی میں کام آتی ہیں صرف پڑھ کے سمجھنے والوں کے لۓ اس میں کوئی فائدہ نہیں ۔

دنیا میں تین نعمتیں لاثانی ہیں : آزادی ، اختیار ، جستجو ۔ خوشابحال ان افراد کا جو ایسی معاشرہ میں آنکھیں کھولتے ہیں جن میں یہ تین عنصر حیات پاۓ جاتے ہوں ۔

جس طرح سے دوسرے لوگوں کو عیش و آرام کی خواھش ہوتی ہے بس اسی طرح سے جن لوگوں کی فکر زیاد ہو تی ہے ان کے لۓ شوق تحریر نا گزیر ہے ، اور تقریبا یہ الفاظ و بیان میری خاموش ضمیر کی چیخیں تھی ، اور اکثر باتوں کو بتانے سے میں خود قاصر تھا ۔ جو کچھ باتیں قابل بیان اور بر وقت تحریر حضور ذھن رکھتی تھی میں نے اپنے بکھری ہوئی فکروں کو توٹے ہوۓ جملوں میں ذکر کردیا ہے ۔

میں ان میں سے نہیں جو اپنی بات بولنے کے بعد اس پر صحّت کی مھر مار دیتے ہیں بلکہ میں میری بات سے کوئی اور باتیں بھی ہو سکتی ہیں جو بہتر ہیں جب دصدردص ہوں کی اور کیا بتا بعض جگہ میں اشتباہ میں بھی ہوں اور شاید میں خود بھی اس اشتباہ کو مبول نہ کرتاہوں ، یا یہ سراسر میری بات خلاف حقّ و حکمت ہو ، یہ بھی ممکن ہے ، کیونکہ ھم انسان ہے ھم میں خطا و اشتباہ کا امکان ہے ۔

دنیا کے موسم کا کوئی خاص مزاج و معین وقت نہیں ہے ، یہاں آدمی آنسووں میں ہنستا اور قہقہوں میں روتا ہے ، کوئی جانتا ھی نہیں بھری محفل میں بیٹھا ہوا کتنا تنھا اور تنھائی میں کتنی گپشپیں ہو تی ہیں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ غم میں کتنی فرحت اور خوشی میں کتنا الم بھرا ہے ! ایک مصرع غالب کا بہت جالب ہے کہ

اتنی پڑی مجھ پر مشکلیں کہ آساں ہو گیئ ۔

یہاں جینے کے لے نہ غم کی ضروت ہے اور نہ خوشی کی کیونکہ کہ دونوں عارضی صفتیں ہیں جو ایک آن میں آئی اور چلے گئی ،بلکہ جینے کے لۓ ایک طریقہ کی ضرورت ہے اب یہ طریقے مختلف ہیں اور بہترین طریقہ سنّت پیمبر ۖ ہے ۔

آخر کار شدّت کرب و تعب کے بعد کشادگی و فرج نصیب ہوئی جس طرح انتھاء تاریکی شب ھی میں سفیدئ صبح صادق کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔

وھی سے جیت کے نکلا جہاں سے ھارا تھا

زمانہ کی روش اس طرح تھی کہ

رہرو چلے ہیں راہ کو ھموار دیکھ کر

لیکن اپنی طبعیت کی افتادگی کچھ اس طرح ناموافق حالات واقع ہوئی ہے کہ

ان آبلوں سے پاوں کے گھبرا گیا تھا جی

دل خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر

جو سبب درد بنا تھا آخر میں وھی باعث درمان ہوا

درد کا حد سے گذر نا ہے دواء ہوجانا

آدمی تاریخ و حالات ، علمی حقائق و دقائق کو بیان کر سکتاہے لیکن اپنی افتادگی و خاکستری کا سامان خود مھیّا کرنا،اپنے نابودی و بےدردی کی تصویر خود کھیچنا،خود کے بے بساط و خطائوں کا قصہ بیان کرنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔

حقیقت حال کیا تھی؟یہ تو الفاظ و معانی و بیان کی دسترس سے بالا ہے لیکن جو کیفیت جستجو و تلاش کے ابتداء و انتھاء کی تھی اسے ھر عارف و سالک نے اپنے اپنےالفاظ و ادراک و انداز میں بتانے کی کوشش کی ہےمولانا آزاد کے لفظوں میں اس طرح اس کیفیت کو ادا کیا جا سکتاہے:اس  راہ کے رسم وآئین اگر چہ بے شمار ہیں،لیکن ہر رہ رو کو دو مسلکوں میں سے ایک مسلک ضرور اختیار کرنا پڑتاہے:یا قمری و بلبل کی آوارگی، یاشمع کی خاموشی و سوزش:

وللناس فی ما یعشقون مذاھب

اور تجربہ کاران طریق جانتے ہیں کہ دوسری راہ پہلے سے کہیں زیادہ نازک اور کٹھن ہے۔ اس میں بے قیدی و بے وضعی کی آزادی ہے،اس میں ضبط و احتیاط کی پابندی:

اے وضع احتیاط ! یہ فصل بہار ہے

گلبانگ شوق زمزمہ سنج فغاں نہ ہو

اور معلوم ہے کہ شعلوں کی طرح بھڑکنا آسان ہے مگر تنور کی طرح اندر ہی اندر سلگنا اور حفظ و ضبط کے سارے آداب و شرائط سے عہدہ برآ ہونا مشکل ہے

عریاں تنی خوش ست،ولے زیب دگر ست

دامان  چاک  چاک  و  گریباں  دریدہ  را (41)

کیا کہیۓ گا غالب کے اس شعر پر ، بالکل آزاد کی فکر سے چسپیدہ ہے ۔

لپٹنا  پرنیاں  میں  شعلۂ  آتش  کا  آساں  ہے

ولےمشکل ہےحکمت دل میں سوزغم چھپانےکی (34)

جو کچھ طریق میں روداد واقع ہوئی وہ تو ناقابل بیان ہے کیونکہ کیفیت لفظوں میں سما نہیں سکتی،پھر بھی حقیقت حال تو یہ جملہ ہے:ضاقت الارض و منعت السماء۔۔۔

کس سےکہوں کہ زھرہےمیرے لۓ مے حیات

کہنہ ہے بزم کائنات تازہ ہیں میرے  واردات  ص333اقبال

یہ سب کیون ہوا،کیا سبب تھا؟کہاں سے طلب و حیرانی کی شروعات ہوئی اس کی ابتداء و انتھاء کیا ہے؟اور جب اتنی شدت کی حیرانی و پریشانی تھی تو بلا سبب ختم کیون ہوگئی؟؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں مل سکتا متقدمین کی طرح میں بھی آنے والوں پر چھوڑوں گا کہ شاید آیندہ آنے والے حضرات اس کا سبب بتا سکیں،لیکن میں تو سارے ماجرے کو اپنی تقصیر و کوتاھی پر ھی حمل کروں گا،کیونکہ

اول و آخر این کھنہ کتاب افتادہ است

ھم تو یہی سمجھ رہے تھے کہ ھم ایک ھی مریض عشق ہیں لیکن جب جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ بیمارستان محبّت کے ساروں کا یہی حال ہے۔سب کو انہیں راستوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔بعض حضرات کی تحریروں سے جو میں محسوس کیا وہ یہ کہ طبیعتیں تو مختلف ہوتی ہیں لیکن ھر طبیعت کو ایک ھی سے راستے طۓ کرنے پڑتے ہیں۔

اب ان باتوں کا میں حوالہ نہ دوںگا کیونکہ یہ واردات محتاج ّثبوت نہیں ہیں عرفاء طریق جانتے ہیں کہ یہ الفاظ اور ان کی تاویل کیا ہے۔

عشق و مذھب ثبوت یا دلیل نہیں چاہتا بلکہ حق عشق چاہتاہے۔

اور عمل ھمارے اختیار میں ہے لیکن عمل پر مترتّب ہونے والے آثار ھمارے اختیار میں نہیں ہیں،ایک بار جو کر دیا پھر اسے کوئی مٹا نہیں سکتا وہ پتھر کی لکھیر ہے، دنیا بڑی خاموش ہے لیکن اس میں ھزارھا خزانہ دفن ہے یہ بظاھر جتنی خاموش ہے اتنی ھی پر اسرار و حکمت ہے خاموش رہنے والے حضرات زیادہ محسوس کر تے ہیں کار جہان بانی سے جہاں بینی کتنا مشکل ہے۔ یہاں پر اتنا موقع نہیں ملتا کہ ھر بات کہہ لو بلکہ ھر بات بغیر بولے سمجھنی پڑتی ہے ۔

اب کیونکہ ھمارے حالات عام زندگی سے کچھ بالا و پائین تھے اس لۓ طرزبیان میں بھی حقیقت کیفیت کے آثار جھلک رہے ہیں۔

سب کا کلام ہے اور،اور میرا کلام اور ہے

عشق  کے  درد مند کا  طرز کلام  اور  ہے

اصل میں طرزتحریر بھی طبیعت ھی کا خمیازہ ہے آدمی کی جیسی طبیعت ہو گی کچھ ویسا ھی اثر تحریر میں بھی ہوگا کیونکہ کچھ طبیعتیں آزادانہ اور بےباکانہ کلام کرتی ہیں اورکچھ طبیعتیں محرم اسرار ہوتی ہیں جو مخفیانہ کلام کرتے ہیں اور کچھ لوگ جھالت و ھوس میں بھرے ہوتے ہیں جو بے معنی وتنگ نظر و مقیّدانہ کلام کرتے ہیں اب کیونکہ میری طبیعت خلاف طبیعت عوام واقع ہوئی ہے اس لۓ میری تحریر میں بھی شکستگی و خام ظاھر ہوگا۔

طائرزیردام کےنالہ توسن چکےہوتم

یہ بھی سن لو نالۂ طائر بام اور ہے

آپ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھو گے تو پتہ چلے گا کہ عام لوگوں سے زیادہ پڑھے لکھے حضرات میں نقائص و گمراہی ہے شاید اس کا سبب یہ ہو کہ بغیر پڑھے تو کسی لغزش کا امکان ھی نہیں اور عام لوگوں کے سامنے تو ابھی خطا کا راستہ کھلاھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بات حق و حقیقت پر ثابت ہے کہ چاہے ظاھری دنیا کی شکل و صورت مختلف ھی کیوں نہ ہو لیکن ھر ظاھر تصویر کے پیچھے ایک صورت حقیقت و واقعیت ضرور باقی رہتی ہے ، چاہے ظاھری وسائل و حالات جتنے بھی بدل جائیں ، چاہے دنیا جتنی بھی تبدیلی کرلے لیکن وہ راستے جو ھر منزل کا قصد کرنے سے پہلے اور ھر کامیابی کا راستہ طۓ کرنے والے شخص کو انجام دینا پڑتاہے وہ یہ کہ انسان کو اپنا تزکیۂ نفس و اصلاح اعمال کے مراحل طۓ کیۓ بغیر کوئی راہ چارہ نہیں ، زمانہ بدل جاۓ اور اتنی ترقّی کر جاۓ کہ کوئی بھی قدرتی آلات سے کام ھی نہ کرے بلکہ صرف مصنوعی آلات ھی سے کام کرے تب بھی کچھ بھی کرنے سے پہلے اپنے آپ کو سدھارنے کا ضروری مرحلہ تو  اسی طرح طۓ کرنا پڑے گا جس طرح سب کو طۓ کرنا پڑا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2

صحیح غلط کا تعین اتنا پیچ ہے کہ کبھی عالم اسلام خیر محض ھی کو شر مطلق سمجھنے لگتاہے اور شر بیّن ھی کو خیر مطلق سے تعبیر کرتاہے ۔ اس لۓ بہتر کو اپنائیں ، جو بہتر ہے وھی صحیح بھی ہے اور جو بہتر نہیں وھی غلط ہے ، جو اولی و بہتر نہیں اسے اپنا ہونے کی بنا پر صحیح سمجھنا انسان نما حیوان صفتوں کی کج نظری ہے اور تاریخ اس غلطی سے بھری پڑی ہے ۔

امام صادق علیہ السلام نے ایک مرتبہ ابو حنیفہ سے سوال کیا : دانشمندی کی کیا جعریف ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ جو بھلائی اور برائی میں امتیاز کرسکے ۔ آپ نے کہا یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں کیونکہ جو ان کی خدمت کرتاہے ان کو ایذا نہیں پہونچاتے اور جو تکلیف دیتاہے اس کو کاٹ کھاتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ نے پوچھاکہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کیا علامت ہے ؟ جواب دیاکہ جو دوبھلائیوں میں سے بہتر کو آحتیار کرے ۔ اور دو برائیوں میں سے مصلحۃ کو برائی پر عمل کرے ۔ (94)

عام حالات ھی کو اس کے عام طریقہ سے تھوڑا ھٹ کے انجام دینا معمولی بات کو بہت بڑی بنا دیتاہے ہے عام حالات کو اس کی کامل تلخینی کے ساتھ پینے کی کوشش کریں ۔

بدلنا کسی چیز کو نہیں ہے ، دنیا جو ہے وھی رہے گی ،بدلنا صرف اپنے کو ہے جہاں فکر و نظر و ارادہ بدل گیا وھی ساری دنیا بدل گئی ۔

جان در جان رفت جان دیگر شود

چوں جان دیگر شد جہاں دیگر شود

ھمارے احساسات ھمارے ارادہ و فکر کے پابند ہو تے ہیں ھمارے جیسے احساسات ہوتے ہیں ویسے ھی افکار ہو تے ہیں اور جیسے افکار ہوتے ہیں کچھ ویسے ھی احساسات بھی بولنے لگتے ہیں ۔

جس کے دل سے نار شھوت مٹ جاۓ اس کے دل میں نور یقین پیدا ہوتاہے ۔

دور اندیشی سے نہیں بلکہ حالت حاضر سے دلیل لو لیکن مشکل یہی ہے کہ جب تک آدمی دور اندیشی سے کام نہ لے تب تک حالت حاضر کو نہیں سمجھ سکتا ۔

بنیادی و اساسی اعتقادات کی بنا در اصل اپنے اپنے مذھب کی کتابوں اور راھنمایان سے اخذ کی جاتی ہیں والّا جو عقل نماز کو ثابت کرتی ہے وھی عقل و استدلال بھجن کو بھی جائز سمجھ سکتا ہے ، بات در اصل یہ ہے کہ ھم عقل و درایت اس کو کہتے ہیں جو اپنے ھی مذھب کے ھمارے ذھنیت میں اتاری ہوئی بات ہوتی ہے ، ھم عقل و شعور کو اسی دائرہ میں گردش کراتے ہیں جو ھمارے مذھب و مسلک کے حدود ہوتے ہے ۔

ایک گاوں میں کھیتی باڑی کرنے والے کسان کے پاس شھر میں رہنے والے آفیسر سے زیادہ ذھنیت ہوتی ہے – بس فرق اتنا ہوتاہے کہ ایک مزدور و کسان اپنی قدرت و فطرت کی عطا کی ہوئی استعداد فکر پر باقی رھتاہے اور ایک آفیسر کی اپنی کمائی ہوئی کسبی افکار ہوتے ہیں – تو جو موھوبی استعداد پر قانع ہو جاۓ اس کے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن جس کے چند افکار ھی کسبی ہوں اس کی اھمیّت ہو تی ہے ۔ و الّا ایک عام طبیعت میں اور رشد پائی ہوئی طبیعت میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا ۔

تقریبا ایک سال کی مدّت میں دو سطر کر کے یہ پراکندہ افکار کو قلم بند کیا ہے ۔

تالیف نسخہ ھاۓ وفا کر رھا تھا میں

محموعۂ  خیال  ابھی  فرد  فرد  تھا

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،/////////////////۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظّارۂ قدرت سے حکمت لیں ۔

کثیر علم رکھنا اور فھیم ہو نا الگ چیز ہے اور سالم فطرت و خوشمزاج ہونا ایک الگ چیز ہے ۔ جو کہ بہت کم جائی جاتی ہے

ھم لوگ ہوتے تو پلید ہیں لیکن اپنے لۓ ھماری خواھشیں ملائک کے جزاؤں کی ہوتی ہے۔

ایک ایسا عالم ہوتاہے کہ آدمی کرنا چاہتاہے اٹھنا چاہتاہے لیکن رکنا نہیں چاہتا ایسے انسان کا کچھ کرنا نہیں بلکہ رکنا ھی کمال ہے۔

سب نقطہ چینی کرتے رہیۓ ساری حقیقتوں کی حقیقت وھی ایک ہے جو رسول نے فرمایا لا الہ اللہ ۔۔۔

یہ چھل کی عدد بہت اھم ہے اسلام میں بعثت رسول چالیس سال میں ہوئی اور اکثر تجربہ ہے کہ چالیس سال سے کچھ حقیقتیں کھلتی ہیں۔چھلم۔

سعادت وعافیت بہت بڑی چیز ہے۔جو ھزاروں میں ایک آدھ کو نصیب ہوتی ہے ۔

جو خیر تک پہوتچا وہ خالق خیر تک پہونچا ،

اس لۓ کیونکہ ذات پہچانی نہیں جاتی تھی اس لۓ آثار کا نام دے دیا ،

 

اکثر میں دیکھا کہ لوگ خصوصا ھمارے مولوی لوگ دوسروں کو مشکوک ثابت کرتے ہیں اور مسخرہ اڑاتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ جس رکود و جمود میں پڑے ہوۓ ہیں وہ حالت بدتر ہے کیونکہ جو فی الحال شکّ کی منزلیں طۓ کررہے ہیں وہ مقدّمہ ہیں یقین کا ۔ جو شک میں پڑا وہ بندۂ خدا کم از کم ٹس کا مس تو ہوا اور اپنے آپ میں یقین پیدا کرنے میں قدم تو بڑھایا جو آگے چل کر ثمرۂ یقعن بنے گا ۔

ہمیشہ فکر اپنے لۓ کرنا چاہۓ اور دوسروں سے دل کا تعلق قائم رکھنا چاہۓ لیکن ھم لوگ کیا کرتے ہیں ساری فکر دوسروں کے لۓ لگا دیتے ہیں اور اپنے لۓ وہ معیار ہوتاہے جو دل چاہے ۔

ساری چھل حدیث لکھنے کے بعد میں یہ سمجھا کہ میں چھل حدیث کے معیار کا کچھ لکھ نہ سکا بس اربعینات لکھنے والوں میں حقیر کا نام بھی شامل ہو گیا ۔

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

سفینہ چاہیۓ اس بحر بیکراں کے لۓ

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

ترکیہ کے شھر استنبول میں ولادت فاطمہ زھرا کے موقع پر سمینار

ادامه مطلب...
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
epapar

epapar

jjjjjg

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali