شاہ خراسان

وبلاگ اطلاع رسانی اخبار و احوال جہاں اسلام ، تبلیغ معارف شیعی و ارشادات مراجع عظام ۔

۴۴ مطلب در فروردين ۱۳۹۵ ثبت شده است

ھندوستانی مسلمان

ھندوستانی مسلمان

دنیا کے کونے کونے میں مسلمان بسے ہوۓ ہیں اور اپنے قومی طرز و طریقہ سے اسلامی زندگی جیتے ہیں ، انھیں میں سے ایک قومی رنگ و رنگت ھمارے ھندی مسلمانوں کی ہے

ھمنے ریگے وید و رامایڑھ و مھابھارت گیتا ۔۔۔ کو قرآن کے آئینہ میں دیکھا ہے

ھمنے اسلامی زندگی کو ایک نیا رنگ دیا ہے – وہ رونق دی ہے کہ انسان سونچنے پر مجبور ہو جاۓ کہ اسلامی پابندیوں کے با وجود کس طرح انسان ایک پر لطف و لذیذ زندگی جی سکتاہے ۔

ھمنے فلسفہ کو عرفان ، اور عقل کو قلب سے جوڑا ہوا ہے ۔

ھند میں ھر طرح کی خارجی ہوائیں چلی لیکن محبت کے آئینہ میں ڈھل کے ۔

ھم اسلامی حکماء و صوفیا میں صرف نظریات کا اختلاف ہوتا ہے لیکن ھندو دھرم میں  اختلاف نظر کا فرق نہیں بلکہ اختلاف اعتقادات و رسوم و دساتور و خدایان کا فرق ہے ۔

حضرت خلیل اللہ نے جب کعبہ بنایا تھا تو ایک ایسے جگہ بنایا تھا جو جہاں کا خشک ترین حصّہ ہے اور ھوا و ھوس سے پاک ہے اور یہ پہلا گھر تھا جسے الہہ نے اپنی پرستش کے لۓ انتخاب کیا تھا او یہی وہ سر زمین ہے جو تعمیر کرّۂ ارضی کا سر آغاز ہے ۔ اب آپ جس قدر کعبۂ بیت اللہ سے دور ہوتے جاۓ گے اتنا ھی سرسبز و ھرابھرا پاۓ گے ۔ آپ جب تک ھمارےھندستان تک پہونچے گے تو کعبہ کے بر خلاف یہاں اکثریت بت پرست و نعمات دنیوی سے لدھا ہوا ، سرسبز و شادات ماحول ملے گا ۔ اور آپ ھند میں بھی جس قدر دکن اور دکھن سے نیچے کی اور جاتے جاۓ گے اتنے ھی جنگلات گھنے ملے گے ۔ اور دیار ھند فتوحات اسلامی کی سرحدّ ہے خصوصا دکھن میں آصف جاھی حکومت  مسلمانوں کی شان و شوکت کا اختتام ہے ۔ اور پھر ھند کا بنگلا دیش و پاکستان میں تقسیم ہوجانا گویا کہ ھند کہ جسے سونے کی چڑیا کہا جاتاتھا ، دونوں بازو کٹ کر اڑتے پرندے کا گرجاناہے ، اور یہی سے مسلمانوں کی حالت روبزوال ہوئی ۔

اسلام و مسلمانوں کا ھند میں ورود متعدد ادوار و مختلف مواقع و ازمان میں ہوتا رھاہے اور ھجرت کے بعد طرح طرح سے یہاں مسلمان آتے رھے ہیں کبھی سلاطین و شورشوں کی صورت میں ، کبھی سادات و اولیاء کرام کی صورت میں ، کبھی سیاحت و سراحت کیصورت میں ، اکثر اوقات ھجرت و سکونت کی غرض سے ھند میں مسلمانوں کا ورود ہوتارھا ہے ۔

یہاں کے مسلمان خلاصۂ عالم اسلام ہیں اور وہ سارے اعتقادات و اختلاف نظر و تعدد مذاھب و الگ الگ رنگ و روپ جو سارے جہاں میں پایا جا تاہے ھماری خاک وطن میں بھی پایا جاتاہے ، اور ھند کے ھر کونے کونے میں تنازعات و مناظرات کا ایک محشر برپا رھتاہے ، یہاں دیگر مسائل سے زیادہ لوگوں کو اختلافی مسائل میں دل چسپی ہے ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

خواجہ مخدوم محمد بندہ نواز گیسو دراز

خواجہ مخدوم محمد بندہ نواز گیسو دراز :

نسخہ گھورا چولی

14 سطور ، 8 صفجات ۔ در علم طب ۔

یہ نسخہ بھی بہت نازک و قدیم ہے سیاہ سیاھی سے استفادہ کیا گیا ہے ،

ترکیب ساختن کولی اینست

ھرتال

ایک دوائی نسخہ ہے جسے بہت ساری دواوں میں استفادہ کیا جا سکتاہے ، اس دواء کو مختلف دردوں کے لۓ مختلف طریقوں سے کھانے سے شفا ملتی ہے ، این ھمہ دوا را برابر وزن اوردہ اور سیماب را یا کندن دوشیرہ بھنکر سلابہ نمودہ تا سہ پھر بعد ازان ھر تالی را باز ھمو نقدر سلابہ کند باقی دوا ھارا علاحدہ سیدہ نمودہ از پارچہ یکگذراندہ ھمہ یکجا کردہ در شیرہ بھنکر تر کردہ کھرل نماید وقتی کہ باریک ۔۔۔۔رمہ طور شود کولی دو سرخ بستہ تفصیل ذیل کہ خواص ان نوشتہ شدہ بصاحب مرض بدھد انشاء اللہ تعالی صحت کامل یابت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی را درد سر یا نیم سر بودہ باشد کولی را با تر پہلہ با روغن سرسون درسر بمالد فرصت یابد اگر کسی را اسفا یعنی جکندر شدہ باشد کولی را با سہ درم پرم دندی ھفت روز بخورد فرصت یابد اگر کسی را استخوان درد میدادہ باشد کو را با یکدرم و دہ مرچ و فلفل دراز نھار بخورد شہوہ بیفزاید عورت را خوشنود کند 60 مرض کی شفاء بتائی ہے ۔ 7 صفحہ ہے ، 60 : اگر کسی را برای دفع فساد عورت یا قضیب با سفیدی بیضہ مرغ یک کولی را سائیدہ بر قضیب بمالد و مجامعت کند بار دیگر توبہ کند تمام شد ۔ کتاب میں شصت و سہ مرض لکھا ہے جبکہ سرخ علامت سے صرف 60 جگہ پر استعمال گنایا ہے ۔

  1. تزک قطب شاھی بشاملات رسالہ عشقیہ ، از بندہ نواز ، کاتب : محمد نور علی ، 1275 ھ ۔
  2. اسماء و الاسرار ، سید محمد حسینی گیسو دراز بندہ نواز / خط نستعلیق / کاتب : شیخ رحمت اللہ / اوراق و سطور : 13/280 ۔
  3. ۔۔۔۔۔۔۔۔ 3281 ۔
  4. جوامع الکلم ، ملفوظات خواجہ بندہ نواز سید محمد اکبر حسینی فرزند خواجہ بندہ نواز ، سنہ وفات 812 ، نستعلیق ، سنہ تحریر 1067ھ  اوراق و سطور : 14/ 338 ، جدول ، 3274 ، کرم خوردہ – قابل مرمت – جلد بندی ۔
  5. خاتمہ / حضرت بندہ نواز ، وفات : 825 ، نسہ تصنیف قبل از 813 ھ ، نستعلیق ، کاتب : محمد معصوم ،
  6. شرح عوارف المعارف ، نادر و نایاب ، گیسودراز ، نسخ خوشخط ،  سنہ تحریر : 1110 ،کاتب : محمد شریف بن محمد حنیف حسینی ، مقام کتابت : ریچور ، سطور : 20/ 2 ۔
  7. وصیت نامہ / گیسو دراز ، نستعلیق ، سنہ تحریر : 1192ھ ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3444
  8. وجود العاشقین مع شرح یک بیت امیر خسرو ، گیسو دراز نسخ نستعلیق / سنہ تحریر 12ھ ، اوراق و سطور : 17/107 ، مھر دو ، 3397 ۔
  9. عشقیہ [معہ دیگر رسائل تصوف ] گیسو دراز نستعلیق  ، سنہ تحریر 1275ھ ، اوراق و سطور 11/12 ،

حقّ الیقین : سید محمد گیسو دراز رح : اوراق و سطور 17/ v20    

وجود العاشقین ، گیسو دراز ، معمولی ، نسہ تحریر 1139 ھ 6 ص ۔ رسالہ عشقیہ ، گیسو دراز 5 ص ۔ 

۵ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

شھید ثالث نوراللہ شوشتری

شھید ثالث نور اللہ شستری 

تاریخ علی عادل شاہ : قاضی سید نوراللہ شوستری ابن محمد علی ابن میر سید اسداللہ ، سنہ تصنیف 1022 ، اوراق و سطور 13/128 ، رسم الخط : شکستہ ، سنہ تحریر : 1227 ھ ۔ نام کاتب : سید کریم ۔

 

وضعیت کتاب : این کتاب ھفت ابواب دارہ ، قدیم خط کی وجہ سے تمام کتاب کا مطالعہ نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ فارسی خط آج کے لوگوں کے بھی پڑھنے کے قابل ہے نقطہ گذاری تمام ہے اگرچہ گاف کو کاف ھی لکھا جاتاہے ، سرخ و سیاہ ، سیاھی سے استفادہ کیا گیا ہے ، اب کیونکہ کتاب بوسیدہ حالت میں ہے اس لۓ مکمل پڑھنے سے معذور ہیں اور عبارت یک سری عبارت ہے سر فصل عنوان یا حدّ بندی مضمون نظر نہیں آرھا ہے ۔

بعھ از حمد بارئ تعالے در مدح و ثناء پیامبر گرامی اسلامۖ می فرمایند : قصیدۂ نبوت قابل ما عرفناک حقّ معرفتک  واز عجز محمدت کوئیش بالا نشین چار بالش رسالت `گویای  لااحصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک   دیدہ جہاں بین شعور در مشاھدۂ انوار آفتاب جمالش خرہ، دل سراسر روشن ھوش دریافت کنہ اسرار کمالش تیرہ ۔۔۔۔۔ ص6 / تاریخ عادل شاھی ۔

۔۔۔ آدم از شرف ابوتش سرفراز کونین ، و ابلیس از استکبار سجدۂ نکردن نوزش مردود دارین ، از گردپای سعادت نقشش سرھای افلاک بلند افسر ، و از مشاھدۂ رخسار عالم آرایش دیدھای ناظران یا آینہ سکندر ھمسر ، نام نامیش کتب فاطر را زیور ، اسم سامیش صحف وزیر را افسر ، بلبل چمن صدق و صفا ، طوطی بوستان کرم و وفا ، ابوالقاسم محمد مصطفی ۔۔۔۔ بعد ازین ھم چندین صفحات در مدح خاتمی مرتبت ۖ سیاہ و سرخ کردہ ۔

در تعریف علی عادل شاہ گفتہ : و کف دش بر روی در آبم و دنا یز ابواب خواری و مذلّت کشادہ ، الغازی فی سبیل اللہ ، المظفّر علی اعداء اللہ علی عادل شاہ جوانبخت ، چون خورشید تابانست بر تخت ، سخاوت خانہ را و خادمانش ، مروت خاکروب آستانش ۔

بر اختتام کتاب نویسندہ این جملات را آوردہ است :

۔۔۔ ملک خواھد بذل این مدّعی را ، ملک آین بگوید این دعا را ، تمّت تمام شد تاریخ علی عادل شاہ ، تصنیف مغفرت پناہ سید نور اللہ – نور اللہ مرقدہ و مضجعہ – بست نوشتہ بماند سیاہ بر سفید ، نویسندہ را نیست فردا امّید ،

الھی بیآموز این ھر سہ را ، مصنف و قاری نویسندہ را ، این کتاب نوشتہ سید کریم بتاریخ بیست و ھفتم شھر رمضان بروز پنجشنبہ بوقت سہ پہار مرتّب شد سنہ ھجری 1143 ۔ تاریخ علی عادل شاہ ص 268 ۔ 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

ملک االتجّار محمود گاوان گیلانی

خواجہ جہاں ملک التجّار،عماد الدین محمود گاوان گیلانی 

عماد الدین محمود گاوان درسال 808 درروستای گاوان در گیلان متولد شد

: عماد الدین محمود گاوان در آغاز بعنوان تجارت و کسب علم به سفر پرداخت اما در دربار سلاطین بهمنی دکن (شمال هند )به مناصبی چون «هزار» نوعی درجه نظامی ،سپهسالار ،امیر الامرا ،ملک التجاره ، حاکم ولایت بیجانپور و حتی وزارت و وکالت امور شاهی ر ابه دست یافت

حکومت بهمنیان با اعلام استقلال از سوی علاءالدین حسن بهمن شاه در بخش هایی از دکن در سال 748 ق آغاز گردید و تا سال 934ق ادامه یافت

محمود گاوان با نام اصلی « عمادالدین محمود بن جلال الدین محمد بن خواجه کمال گیلانی » در یکی از روستاهای گیلان به نام « گاوان » متولد شد. (فرشته، 1301، ق.ج1، ص 358) (1) وی از خانواده ی اشرافی گیلان به شمار می آمد.

من فکر ھم نمی کردم کہ این قدر شخصیت بزرگ ، وزیر مطلق حکومت بہمنیہ ، ماھر قلم و شمشیر ، خواجۂ جہاں ، آن مردی کہ حکومت دکن را از گوا تا بنگلا دیش رسانیدہ بود این قدر مظلوم است کہ مزار سایہ نہ دارہ ، بجای مقبرۂ اش فقط قبر معمولی درست کردند ، ھیچ کس آن جا نمی آید ، برایش یک سورۂ فاتحہ نمی خواند ، گرد و پیش درگاھش یک کمی مردم زندگی می کنند ، راہ مناسبی برای رفتن مزارش وجود ندارہ ۔ حتّی آن علمائی کہ محمود گاوان دعوت کردہ بود  مقبرۂ بزرگی و عالی دارند  در چوکھنڈی وغیرہ و ھمبستگان گاوان ھم مقبرھای بزرگی دارند کہ مرجع و مزار خلائق است ولی متاسّفانہ قبر محمود گاوان یک شمع و ھم ندارہ ، درخت نیم سایہ کردہ است و یک حصار معمولی دور قبرش درست کردند ، قبرش تقریبا 8 فٹ طول و 3 فٹ عرض دارہ ۔

یک عمارت قدیمی نزد مزار دیدہ می شود ولی فکر می کنم این دیوار کوچکی را در زمان حکومت بہمنیہ درست کردہ می باشند ؛ الآن کہ ھیچ اثری از طرز تعمیرش ۔۔۔ کہ باقی نماندہ است ، در عھد سلطنت میر عثمان علی خان آصف جان سابع یک تختئ سنگی با تفصیل مختصری کنار قبر تعمیر کردہ بود ، الآن ھم است ۔

در جوار قبر گاوان یک دریاچہ وجود داشت متاسّفانہ راھھای ورود آب را بستند و آن دریا را خشک کردند وآنجا دانشگاہ شاھین درست می کنند ۔

وہ علل جن کی بنا پر محمود گاوان کو شیعہ کہا جا سکتاہے :

خطبۂ کتاب :

متن کتاب و رسائل :

اختتام کتاب :

خود شیعیت کا بیدر کے کونے کونے میں پایا جانا ، ایک دلیل بنتاہے اس بات کی کہ محمود گاوان شیعہ تھے اور کرمانشاھیوں کو اپنے مدرسہ میں تدرکس کے لۓ بلانا ایک واضح دلیل ہے کیونکہ بے شمار بلاۓ جانے والوں میں سب سے زیادہ مشھور جن کے مقبرہ نظر آتے ہیں وہ چوکھنڈی کے کرمانشاھی مزارات ھی ہیں جو اس شان و شکوہ سے تعمیر کیۓ گیۓ ہیں جس سے اس بات کا پتہ چلتاہے کہ ان کی منزلت و اثر ان کی حیات میں کتنا تھا ۔

اور ایک سبب محمود گاوان کے شیعہ ہونے کا یہ بھی ہو سکتاہے کہ محمود گاوان گیلان کے رھنے والے ہیں کہ جہان کے تمام لوگ شیعہ ہیں اور آپ کو شاید ھی بڑی مشکل سے کوئی دوسرا مذھب والا ملے اور خاص بات یہ کہ گیلانی شیعہ ابتداء ھی سے شیعہ ہیں جب سے وہ مسلمان ہوۓ ہیں ۔

تالیفات :

مناظر الانشاء :

نھایت فصیح و بلیغ ، پر مغز و معنے الفاظ ، عجیب و غریب تراکیب و تماثیل ، بیش از حدّ استعارہ و کنایہ کا نمونہ ہیں محمود گاوان کے یہ خطوط ، اور میری نظروں سے صرف دو ایسے انشاء پرداز گذرے ہیں جن کی میں نظیر نہیں جانتا ؛ ایک مولانا ابوالکلام آزاد اردو انشاء میں اور دوسرے محمود گاوان فارسی انشاء میں ، جبکہ کوئی شکّ نہیں کہ محمود گاوان کی شخصیت قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ بہمنی سلطنت کے باوفاء وزیر بلکہ قوام مطلق ہیں ،  اور اس دور میں اس قدر خطوط کی شکل میں الفاظ و معانی کو انشاء کرنا غیر معمولی ہے ۔ جبکہ مولانا آزاد دور جدید کے انشاء پرداز ہیں اس لحاظ سے محمود گاوان کی شخصیت اعلی و ارفع ہے ۔

 

ریاض الانشاء :

خطبۃ الکتاب : صل علی ادلّۃ مسالک السعادۃ و اجلّۃ ممالک ، غایۃ الابداء و الاعادۃ و خصص من بینھم دلیلنا الھادی من کثرۃ الظلماء الی ضحوۃ الوحدۃ و الصفا ، محمد المصطفی المجتبی و علی اھلّۃ فلک العباء المشرّفین بتیجان ،، الا المودّۃ فی القربی ،، و صنادید مساند  الصحبۃ علی ارائک العھود ،، الذین سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ،، و سلم تسلیما  کثیرا کثیرا –

یک مرقّع فصاحتش در حمد خدا وندی ایک است :

جلیلی کہ ھر چںد فارس نفس ناطقہ بر اشھب تیز حیات در فیفای معرفت کنہ ذاتش بمعونت عقل و حواس و مؤنت فکر و احساس طی فراسخ و امیال اسابیع و ایام و قطع مناھل و منازل شھود و اعوام بتقدیم رسانید ، جز حیرت سبیلی ندید و غیر از عجز دلیلی نیافت –بیت :-

عقل عنان کشیدہ چو سوزن درین طلب

عمری بسی دوید در آخر عقال یافت ( ریاض الانشاء / 2 )

 

قواعد الانشاء :

کتاب را باین الفاظ شروع کردہ است یک نمونہ از فصاحت حضرتعالی را ملاحظہ کنید :

یا مبدی الانشاء ببسط نور انوجود و یا مجری الکلم و القلم علی الوجود و العدم بمقتضی الجود و یا مظھر ثمر نور الاعلام من شجون ضوی دوحتہ الکلام ویا منور باصرۃ عین الافھام من کحل مداد الکتابت بمراودات الاقلام نسالک ان تصلی علی تیجان النبوۃ فی اقالیم الایجاد و الاختراع و سلاطین ارایک الرسالہ الظھار احکام مصالح ملک الابداع خصوصا علی رسولنا الداعی بدلیل کتابک الی اسلم سسل الرشاد الھادی باضات کلامک من ظلام عبادت الفواد الی نور معرفت وحدۃ المبداء و المعاد محمدن الذی رتّبت سماء معجزاتہ بکواکب حظایک سابق الثاقب وانقدت مناشیردینہ من السارق الی المغارب و ذللت الذین قابلو سطور کتابہ بصفوف الکتائب حتی جعلت رقابھم تراب سیفہ القاضب و علی آلہ الذین صرت مودّتھم لنا حرزا و جحبہ الذین جعلت جہدھم فی الدین لنا و ام عزّا امّا بعد چنین گوید فقیر جانی محمود بن شیخ محمد گیلانی کہ بر خاطر پاک سرّ شتّان و ضمیر درّاک صدر نشینان محافل ادراک ظاھر و ھویداست کہ علم انشاء رسائل و خطب از جلائل اقسام اثنی عشر علم ادب است ۔

ازین جملات حمد و صلوات کتاب را آغاز کردہ بود بعد ازآن مختصر فھرست مطالب کتاب خود را وضاحت کردہ است ، بسبب قلّت وقت تمام کتاب را نمی توانستم مطالعہ بکنم ولی کتاب در علم ادبیات خیلی عالیہ ۔ قواعد انشاء درین دوازدہ علم است :

اول اقسام اثنی عشر علم ادب علم لغت است ثانی علم صرف است ثالث علم اشتقاق است رابع علم نحو است خامس علم معانی است سادس علم بیان است ۔ سابع : علم عروض است ۔ ثامن : علم قافیہ است ۔ تاسع : علم فرض شعر است ۔ عاشر : علم خط است ۔ احد عشر : انشاء نثر است از رسائل و خطب ۔ ثانی عشر : علم محاضر است و علم تاریخ داخل محاضرات داشتہ و معرفتش فص خاتم فضایل و ینبوع زلال مقال کامل زیرا کہ عنان ظہور افضلیت ادم و زمام نظام تمام عالم بدست شہسوار کلام و کف کافے ترجمان اقلام ست چہ یقین است کہ تکوین اشیاء بلفظ کن است و انتھاء تمام مظاھر بسخن قطعہ

پس بگفتم و شنیدیم سخن بوداند

پرتو خاستہ کہ حل معما میکرد

سخن است اول اشیاء و سخن آخر کار

درمیان ھرکہ خبردارست تماشا میکرد

یکی از عبارات این است ۔۔۔ و نقصان میکند الف را از ھذا و ھذہ  و ھذان و ھؤلاء بسبب کثرت استعمال بخلاف ھاء و تاء و ھایی کہ قلیل الاستعمال است واگر در آخر کاف درآید اول الف را نقصان نمیکنند مثل ھذاک زیرا کہ کاف ھذا متصل شد مانند جرء است مکروہ داشتہ اند مزج سہ کلمہ بنا برین الف در آوردہ اند۔۔۔۔۔  مناظرالانشاء ص 265

نسخۂ خطّی این کتاب کہ در کتابخانۂ سالار جنگ یافتہ شد ؛ نقطہ گذاری در زمان تحریر مھمّ نہ بودہ بعضی جا نقطہ می گذاشتنت و بعضی جا نقطہ گذاشتن را مھم نمی دانند ، گاف را کاف می نویسند ،ولی عبارت خیلی صاف و شفّاف است مثل تحریرھای قدیم  عبارت را گیچ نہ کردہ است 

۲ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali