شاہ خراسان

وبلاگ اطلاع رسانی اخبار و احوال جہاں اسلام ، تبلیغ معارف شیعی و ارشادات مراجع عظام ۔

۴۴ مطلب در فروردين ۱۳۹۵ ثبت شده است

basit ali
epapar2

epapar2

epapar2

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

بابا رام کی خرافاتی تقریر

 
کہا قانون سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، نہیں تو لاکھوں سر دھڑ سے الگ کر دیتا 
نئی دہلی۔ ۴؍اپریل:  (آئی بی این خبر) بابا رام دیو نے ایک ایسا متنازعہ بیان دے دیا ہے جو ان کی مشکلات بڑھا سکتا ہے۔ اویسی کا نام لئے بغیر بابا نے کہا کہ کچھ لوگ ٹوپی پہن کر کھڑا ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چاہے سر کاٹ دیں، لیکن بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ قانون سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، نہیں تو لاکھوں سر دھڑ سے الگ کر دیتے۔ بابا رام دیو روہتک میں منعقد خیر سگالی تقریب میں حصہ لینے پہنچے تھے۔بابا ویسے تو روہتک میں سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے کے مقصد سے منعقد ایک پروگرام میں شرکت کرنے پہنچے تھے، لیکن حب الوطنی کا سہارا لے کر بابا رام دیو نے اویسی پر نشانہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کچھ لوگ ٹوپی پہن کر یہ کہتے ہیں کہ چاہے سر دھڑ سے الگ ہو جائے وہ بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے۔ لیکن شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔ نہیں تو اگر کوئی بھارت ماتا کی توہین کرے تو لاکھوں سر دھڑ سے الگ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو مذہب بھارت ماتا کی جے بولنے کو درست نہیں مانتا ہو، وہ مذہب ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔قانون سے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، نہیں تو لاکھوں سر دھڑ سے الگ کر دیتے: بابا رام دیوبابا کے اس بیان پر لالو یادو نے کہا کہ جو اس طرح کی بات بولتے ہیں وہ ہندو اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اویسی اور آر ایس ایس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہیں جے ڈی یو لیڈر کیسی تیاگی نے کہا کہ بابا رام دیو جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں وہ بغاوت کی زبان ہے۔ ان پر مقدمہ درج ہونا چاہئے۔
۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

عرض حال

٭}  عرض حال { ٭

کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر

اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

اس شعر سے آغاز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سارا ماجرا جو قلب ونظر کا دوچار سال سے آج تک دست وگریباں رہا ہے یہ شعر اسی حقیقت حال کا بی کم وبیش خلاصہ ہے،حقیقت کیا ہے؟ یہ تو کسی کو نہیں معلوم لیکن اگر وہ بھی حقیقت نہیں ہے جسے ھم نے حقیقت کا نام دیا ہے تب تو حقیقت کوئی ایسی گران بھا شۓ ہے جس تک دسترسی ھم جیسے بندوں سے محال ہے،اور اگر کسی کلام کو حقیقت رساں کہا جا سکتاہے جو جستجو یار میں صرف درباں ہوئی ہو، تو یہ نا قابل کاوش بھی اسی کا ایک حصّہ ہے جسے ایک طالب علم نے قرطاس و قلم کے حوالہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

میری لکلکی زبان کی کیا اھمیت ؟! اور ھم کونسے سخنور ہیں لیکن فیض احمد فیض کی فکر کے پیش نظر میں نے بھی یہی تجویز کیا کہ :

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے     جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک     بول ، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

ابتدائی کلمات میں بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ کائنات میں کوئی بھی علم کامل یا کمال نھائی لے کر پیدا نہیں ہوا سواۓ نفوس مقدّسہ اھلبیت اطھار علیھم السلام و انبیاءکرام  علیہم السلام کے،باقی کے ھم سب فنا کے نوالے ہیں مگر یہ کہ اپنے بقا کا سامان مھیّا کر لیں،ھر کسی کو جھالت سے علم ،کجروئ سے ھدایت ،شقاوت سے سعادت تک کا سفر طۓ کرناہے،تو کوئی بھی اپنے آپ کو یہ نہ سمجھے کہ وہ پیکر علم و شرافت ہے بلکہ ھر کسی کو نقص سے کمال تک کا راستہ چلناہے جو اس راہ میں گمراہ نہیں ہوا وھی کامیاب ہے۔

یہ چند نکتے اپنے ذھن میں رکھیں کہ میں جو کچھ لکھ رھا ہوں وہ کوئی حتمی اور واقعی نہیں ہے کیا پتہ کچھ صحیح ہو اور کچھ غلط ہو یا پھر شاید میری بات صد در صد غلط ہو کیونکہ ھم انسان ہے ھمارے اندر خطا کا امکان لازمی ہے ، میں ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنے بات بولنے کے بعد میں اس پر صحّت کا مھر مار دیتے ہیں ، میں اپنے عقل و وجدان سے بولنے کے باوجود اس میں خطا و سہو کو قبول کرتاہوں ۔

اور جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ عملی زندگی سے زیادہ سازگار ہے ، یہ وہ فکریں ہیں جو زندگی میں کام آتی ہیں صرف پڑھ کے سمجھنے والوں کے لۓ اس میں کوئی فائدہ نہیں ۔

دنیا میں تین نعمتیں لاثانی ہیں : آزادی ، اختیار ، جستجو ۔ خوشابحال ان افراد کا جو ایسی معاشرہ میں آنکھیں کھولتے ہیں جن میں یہ تین عنصر حیات پاۓ جاتے ہوں ۔

جس طرح سے دوسرے لوگوں کو عیش و آرام کی خواھش ہوتی ہے بس اسی طرح سے جن لوگوں کی فکر زیاد ہو تی ہے ان کے لۓ شوق تحریر نا گزیر ہے ، اور تقریبا یہ الفاظ و بیان میری خاموش ضمیر کی چیخیں تھی ، اور اکثر باتوں کو بتانے سے میں خود قاصر تھا ۔ جو کچھ باتیں قابل بیان اور بر وقت تحریر حضور ذھن رکھتی تھی میں نے اپنے بکھری ہوئی فکروں کو توٹے ہوۓ جملوں میں ذکر کردیا ہے ۔

میں ان میں سے نہیں جو اپنی بات بولنے کے بعد اس پر صحّت کی مھر مار دیتے ہیں بلکہ میں میری بات سے کوئی اور باتیں بھی ہو سکتی ہیں جو بہتر ہیں جب دصدردص ہوں کی اور کیا بتا بعض جگہ میں اشتباہ میں بھی ہوں اور شاید میں خود بھی اس اشتباہ کو مبول نہ کرتاہوں ، یا یہ سراسر میری بات خلاف حقّ و حکمت ہو ، یہ بھی ممکن ہے ، کیونکہ ھم انسان ہے ھم میں خطا و اشتباہ کا امکان ہے ۔

دنیا کے موسم کا کوئی خاص مزاج و معین وقت نہیں ہے ، یہاں آدمی آنسووں میں ہنستا اور قہقہوں میں روتا ہے ، کوئی جانتا ھی نہیں بھری محفل میں بیٹھا ہوا کتنا تنھا اور تنھائی میں کتنی گپشپیں ہو تی ہیں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ غم میں کتنی فرحت اور خوشی میں کتنا الم بھرا ہے ! ایک مصرع غالب کا بہت جالب ہے کہ

اتنی پڑی مجھ پر مشکلیں کہ آساں ہو گیئ ۔

یہاں جینے کے لے نہ غم کی ضروت ہے اور نہ خوشی کی کیونکہ کہ دونوں عارضی صفتیں ہیں جو ایک آن میں آئی اور چلے گئی ،بلکہ جینے کے لۓ ایک طریقہ کی ضرورت ہے اب یہ طریقے مختلف ہیں اور بہترین طریقہ سنّت پیمبر ۖ ہے ۔

آخر کار شدّت کرب و تعب کے بعد کشادگی و فرج نصیب ہوئی جس طرح انتھاء تاریکی شب ھی میں سفیدئ صبح صادق کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔

وھی سے جیت کے نکلا جہاں سے ھارا تھا

زمانہ کی روش اس طرح تھی کہ

رہرو چلے ہیں راہ کو ھموار دیکھ کر

لیکن اپنی طبعیت کی افتادگی کچھ اس طرح ناموافق حالات واقع ہوئی ہے کہ

ان آبلوں سے پاوں کے گھبرا گیا تھا جی

دل خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر

جو سبب درد بنا تھا آخر میں وھی باعث درمان ہوا

درد کا حد سے گذر نا ہے دواء ہوجانا

آدمی تاریخ و حالات ، علمی حقائق و دقائق کو بیان کر سکتاہے لیکن اپنی افتادگی و خاکستری کا سامان خود مھیّا کرنا،اپنے نابودی و بےدردی کی تصویر خود کھیچنا،خود کے بے بساط و خطائوں کا قصہ بیان کرنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔

حقیقت حال کیا تھی؟یہ تو الفاظ و معانی و بیان کی دسترس سے بالا ہے لیکن جو کیفیت جستجو و تلاش کے ابتداء و انتھاء کی تھی اسے ھر عارف و سالک نے اپنے اپنےالفاظ و ادراک و انداز میں بتانے کی کوشش کی ہےمولانا آزاد کے لفظوں میں اس طرح اس کیفیت کو ادا کیا جا سکتاہے:اس  راہ کے رسم وآئین اگر چہ بے شمار ہیں،لیکن ہر رہ رو کو دو مسلکوں میں سے ایک مسلک ضرور اختیار کرنا پڑتاہے:یا قمری و بلبل کی آوارگی، یاشمع کی خاموشی و سوزش:

وللناس فی ما یعشقون مذاھب

اور تجربہ کاران طریق جانتے ہیں کہ دوسری راہ پہلے سے کہیں زیادہ نازک اور کٹھن ہے۔ اس میں بے قیدی و بے وضعی کی آزادی ہے،اس میں ضبط و احتیاط کی پابندی:

اے وضع احتیاط ! یہ فصل بہار ہے

گلبانگ شوق زمزمہ سنج فغاں نہ ہو

اور معلوم ہے کہ شعلوں کی طرح بھڑکنا آسان ہے مگر تنور کی طرح اندر ہی اندر سلگنا اور حفظ و ضبط کے سارے آداب و شرائط سے عہدہ برآ ہونا مشکل ہے

عریاں تنی خوش ست،ولے زیب دگر ست

دامان  چاک  چاک  و  گریباں  دریدہ  را (41)

کیا کہیۓ گا غالب کے اس شعر پر ، بالکل آزاد کی فکر سے چسپیدہ ہے ۔

لپٹنا  پرنیاں  میں  شعلۂ  آتش  کا  آساں  ہے

ولےمشکل ہےحکمت دل میں سوزغم چھپانےکی (34)

جو کچھ طریق میں روداد واقع ہوئی وہ تو ناقابل بیان ہے کیونکہ کیفیت لفظوں میں سما نہیں سکتی،پھر بھی حقیقت حال تو یہ جملہ ہے:ضاقت الارض و منعت السماء۔۔۔

کس سےکہوں کہ زھرہےمیرے لۓ مے حیات

کہنہ ہے بزم کائنات تازہ ہیں میرے  واردات  ص333اقبال

یہ سب کیون ہوا،کیا سبب تھا؟کہاں سے طلب و حیرانی کی شروعات ہوئی اس کی ابتداء و انتھاء کیا ہے؟اور جب اتنی شدت کی حیرانی و پریشانی تھی تو بلا سبب ختم کیون ہوگئی؟؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں مل سکتا متقدمین کی طرح میں بھی آنے والوں پر چھوڑوں گا کہ شاید آیندہ آنے والے حضرات اس کا سبب بتا سکیں،لیکن میں تو سارے ماجرے کو اپنی تقصیر و کوتاھی پر ھی حمل کروں گا،کیونکہ

اول و آخر این کھنہ کتاب افتادہ است

ھم تو یہی سمجھ رہے تھے کہ ھم ایک ھی مریض عشق ہیں لیکن جب جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ بیمارستان محبّت کے ساروں کا یہی حال ہے۔سب کو انہیں راستوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔بعض حضرات کی تحریروں سے جو میں محسوس کیا وہ یہ کہ طبیعتیں تو مختلف ہوتی ہیں لیکن ھر طبیعت کو ایک ھی سے راستے طۓ کرنے پڑتے ہیں۔

اب ان باتوں کا میں حوالہ نہ دوںگا کیونکہ یہ واردات محتاج ّثبوت نہیں ہیں عرفاء طریق جانتے ہیں کہ یہ الفاظ اور ان کی تاویل کیا ہے۔

عشق و مذھب ثبوت یا دلیل نہیں چاہتا بلکہ حق عشق چاہتاہے۔

اور عمل ھمارے اختیار میں ہے لیکن عمل پر مترتّب ہونے والے آثار ھمارے اختیار میں نہیں ہیں،ایک بار جو کر دیا پھر اسے کوئی مٹا نہیں سکتا وہ پتھر کی لکھیر ہے، دنیا بڑی خاموش ہے لیکن اس میں ھزارھا خزانہ دفن ہے یہ بظاھر جتنی خاموش ہے اتنی ھی پر اسرار و حکمت ہے خاموش رہنے والے حضرات زیادہ محسوس کر تے ہیں کار جہان بانی سے جہاں بینی کتنا مشکل ہے۔ یہاں پر اتنا موقع نہیں ملتا کہ ھر بات کہہ لو بلکہ ھر بات بغیر بولے سمجھنی پڑتی ہے ۔

اب کیونکہ ھمارے حالات عام زندگی سے کچھ بالا و پائین تھے اس لۓ طرزبیان میں بھی حقیقت کیفیت کے آثار جھلک رہے ہیں۔

سب کا کلام ہے اور،اور میرا کلام اور ہے

عشق  کے  درد مند کا  طرز کلام  اور  ہے

اصل میں طرزتحریر بھی طبیعت ھی کا خمیازہ ہے آدمی کی جیسی طبیعت ہو گی کچھ ویسا ھی اثر تحریر میں بھی ہوگا کیونکہ کچھ طبیعتیں آزادانہ اور بےباکانہ کلام کرتی ہیں اورکچھ طبیعتیں محرم اسرار ہوتی ہیں جو مخفیانہ کلام کرتے ہیں اور کچھ لوگ جھالت و ھوس میں بھرے ہوتے ہیں جو بے معنی وتنگ نظر و مقیّدانہ کلام کرتے ہیں اب کیونکہ میری طبیعت خلاف طبیعت عوام واقع ہوئی ہے اس لۓ میری تحریر میں بھی شکستگی و خام ظاھر ہوگا۔

طائرزیردام کےنالہ توسن چکےہوتم

یہ بھی سن لو نالۂ طائر بام اور ہے

آپ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھو گے تو پتہ چلے گا کہ عام لوگوں سے زیادہ پڑھے لکھے حضرات میں نقائص و گمراہی ہے شاید اس کا سبب یہ ہو کہ بغیر پڑھے تو کسی لغزش کا امکان ھی نہیں اور عام لوگوں کے سامنے تو ابھی خطا کا راستہ کھلاھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بات حق و حقیقت پر ثابت ہے کہ چاہے ظاھری دنیا کی شکل و صورت مختلف ھی کیوں نہ ہو لیکن ھر ظاھر تصویر کے پیچھے ایک صورت حقیقت و واقعیت ضرور باقی رہتی ہے ، چاہے ظاھری وسائل و حالات جتنے بھی بدل جائیں ، چاہے دنیا جتنی بھی تبدیلی کرلے لیکن وہ راستے جو ھر منزل کا قصد کرنے سے پہلے اور ھر کامیابی کا راستہ طۓ کرنے والے شخص کو انجام دینا پڑتاہے وہ یہ کہ انسان کو اپنا تزکیۂ نفس و اصلاح اعمال کے مراحل طۓ کیۓ بغیر کوئی راہ چارہ نہیں ، زمانہ بدل جاۓ اور اتنی ترقّی کر جاۓ کہ کوئی بھی قدرتی آلات سے کام ھی نہ کرے بلکہ صرف مصنوعی آلات ھی سے کام کرے تب بھی کچھ بھی کرنے سے پہلے اپنے آپ کو سدھارنے کا ضروری مرحلہ تو  اسی طرح طۓ کرنا پڑے گا جس طرح سب کو طۓ کرنا پڑا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2

صحیح غلط کا تعین اتنا پیچ ہے کہ کبھی عالم اسلام خیر محض ھی کو شر مطلق سمجھنے لگتاہے اور شر بیّن ھی کو خیر مطلق سے تعبیر کرتاہے ۔ اس لۓ بہتر کو اپنائیں ، جو بہتر ہے وھی صحیح بھی ہے اور جو بہتر نہیں وھی غلط ہے ، جو اولی و بہتر نہیں اسے اپنا ہونے کی بنا پر صحیح سمجھنا انسان نما حیوان صفتوں کی کج نظری ہے اور تاریخ اس غلطی سے بھری پڑی ہے ۔

امام صادق علیہ السلام نے ایک مرتبہ ابو حنیفہ سے سوال کیا : دانشمندی کی کیا جعریف ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ جو بھلائی اور برائی میں امتیاز کرسکے ۔ آپ نے کہا یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں کیونکہ جو ان کی خدمت کرتاہے ان کو ایذا نہیں پہونچاتے اور جو تکلیف دیتاہے اس کو کاٹ کھاتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ نے پوچھاکہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کیا علامت ہے ؟ جواب دیاکہ جو دوبھلائیوں میں سے بہتر کو آحتیار کرے ۔ اور دو برائیوں میں سے مصلحۃ کو برائی پر عمل کرے ۔ (94)

عام حالات ھی کو اس کے عام طریقہ سے تھوڑا ھٹ کے انجام دینا معمولی بات کو بہت بڑی بنا دیتاہے ہے عام حالات کو اس کی کامل تلخینی کے ساتھ پینے کی کوشش کریں ۔

بدلنا کسی چیز کو نہیں ہے ، دنیا جو ہے وھی رہے گی ،بدلنا صرف اپنے کو ہے جہاں فکر و نظر و ارادہ بدل گیا وھی ساری دنیا بدل گئی ۔

جان در جان رفت جان دیگر شود

چوں جان دیگر شد جہاں دیگر شود

ھمارے احساسات ھمارے ارادہ و فکر کے پابند ہو تے ہیں ھمارے جیسے احساسات ہوتے ہیں ویسے ھی افکار ہو تے ہیں اور جیسے افکار ہوتے ہیں کچھ ویسے ھی احساسات بھی بولنے لگتے ہیں ۔

جس کے دل سے نار شھوت مٹ جاۓ اس کے دل میں نور یقین پیدا ہوتاہے ۔

دور اندیشی سے نہیں بلکہ حالت حاضر سے دلیل لو لیکن مشکل یہی ہے کہ جب تک آدمی دور اندیشی سے کام نہ لے تب تک حالت حاضر کو نہیں سمجھ سکتا ۔

بنیادی و اساسی اعتقادات کی بنا در اصل اپنے اپنے مذھب کی کتابوں اور راھنمایان سے اخذ کی جاتی ہیں والّا جو عقل نماز کو ثابت کرتی ہے وھی عقل و استدلال بھجن کو بھی جائز سمجھ سکتا ہے ، بات در اصل یہ ہے کہ ھم عقل و درایت اس کو کہتے ہیں جو اپنے ھی مذھب کے ھمارے ذھنیت میں اتاری ہوئی بات ہوتی ہے ، ھم عقل و شعور کو اسی دائرہ میں گردش کراتے ہیں جو ھمارے مذھب و مسلک کے حدود ہوتے ہے ۔

ایک گاوں میں کھیتی باڑی کرنے والے کسان کے پاس شھر میں رہنے والے آفیسر سے زیادہ ذھنیت ہوتی ہے – بس فرق اتنا ہوتاہے کہ ایک مزدور و کسان اپنی قدرت و فطرت کی عطا کی ہوئی استعداد فکر پر باقی رھتاہے اور ایک آفیسر کی اپنی کمائی ہوئی کسبی افکار ہوتے ہیں – تو جو موھوبی استعداد پر قانع ہو جاۓ اس کے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن جس کے چند افکار ھی کسبی ہوں اس کی اھمیّت ہو تی ہے ۔ و الّا ایک عام طبیعت میں اور رشد پائی ہوئی طبیعت میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا ۔

تقریبا ایک سال کی مدّت میں دو سطر کر کے یہ پراکندہ افکار کو قلم بند کیا ہے ۔

تالیف نسخہ ھاۓ وفا کر رھا تھا میں

محموعۂ  خیال  ابھی  فرد  فرد  تھا

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،/////////////////۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظّارۂ قدرت سے حکمت لیں ۔

کثیر علم رکھنا اور فھیم ہو نا الگ چیز ہے اور سالم فطرت و خوشمزاج ہونا ایک الگ چیز ہے ۔ جو کہ بہت کم جائی جاتی ہے

ھم لوگ ہوتے تو پلید ہیں لیکن اپنے لۓ ھماری خواھشیں ملائک کے جزاؤں کی ہوتی ہے۔

ایک ایسا عالم ہوتاہے کہ آدمی کرنا چاہتاہے اٹھنا چاہتاہے لیکن رکنا نہیں چاہتا ایسے انسان کا کچھ کرنا نہیں بلکہ رکنا ھی کمال ہے۔

سب نقطہ چینی کرتے رہیۓ ساری حقیقتوں کی حقیقت وھی ایک ہے جو رسول نے فرمایا لا الہ اللہ ۔۔۔

یہ چھل کی عدد بہت اھم ہے اسلام میں بعثت رسول چالیس سال میں ہوئی اور اکثر تجربہ ہے کہ چالیس سال سے کچھ حقیقتیں کھلتی ہیں۔چھلم۔

سعادت وعافیت بہت بڑی چیز ہے۔جو ھزاروں میں ایک آدھ کو نصیب ہوتی ہے ۔

جو خیر تک پہوتچا وہ خالق خیر تک پہونچا ،

اس لۓ کیونکہ ذات پہچانی نہیں جاتی تھی اس لۓ آثار کا نام دے دیا ،

 

اکثر میں دیکھا کہ لوگ خصوصا ھمارے مولوی لوگ دوسروں کو مشکوک ثابت کرتے ہیں اور مسخرہ اڑاتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ جس رکود و جمود میں پڑے ہوۓ ہیں وہ حالت بدتر ہے کیونکہ جو فی الحال شکّ کی منزلیں طۓ کررہے ہیں وہ مقدّمہ ہیں یقین کا ۔ جو شک میں پڑا وہ بندۂ خدا کم از کم ٹس کا مس تو ہوا اور اپنے آپ میں یقین پیدا کرنے میں قدم تو بڑھایا جو آگے چل کر ثمرۂ یقعن بنے گا ۔

ہمیشہ فکر اپنے لۓ کرنا چاہۓ اور دوسروں سے دل کا تعلق قائم رکھنا چاہۓ لیکن ھم لوگ کیا کرتے ہیں ساری فکر دوسروں کے لۓ لگا دیتے ہیں اور اپنے لۓ وہ معیار ہوتاہے جو دل چاہے ۔

ساری چھل حدیث لکھنے کے بعد میں یہ سمجھا کہ میں چھل حدیث کے معیار کا کچھ لکھ نہ سکا بس اربعینات لکھنے والوں میں حقیر کا نام بھی شامل ہو گیا ۔

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

سفینہ چاہیۓ اس بحر بیکراں کے لۓ

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

ترکیہ کے شھر استنبول میں ولادت فاطمہ زھرا کے موقع پر سمینار

ادامه مطلب...
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
epapar

epapar

jjjjjg

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

مسلمانوں کے زوال و پسماندگی کے اسباب

مسلمانوں کے زوال و پسماندگی کے اسباب  

کوتاھئ عمل کے اسباب :

دور دور کی کبھی نہ ہونے والی امّیدیں :

خدا کی جگہ صرف قلب انسان میں ہے لیکن ھم لوگ کیونکہ کہ دل میں ھزار خواھشیں رکھتے ہیں اس لۓ خدا کو صرف تصورات و علم و عرفانی بحثوں میں جگہ دیتے ہیں ،در حالیکہ اللہ کی جگہ ھماری زندگیوں میں عمل و ایمان میں تھی نہ کہ خیالات و ذھنیات میں ۔

ما کذب الفواد ما راۂ

روح ایمان مدھم پڑ گئی ہے اور فکریں تیز ہو گئ ہیں :

 

موقع و محلّ و اشخاص سے شکوہ :

کامیاب لوگ کبھی بھی کسی بھی چیز کا شکوہ نہیں کرتے انھیں اگر کسی سے شکوہ ہوتاہے تو وہ خود انھیں سے ہوتاہے اور اپنے کم عملی یا بے عملی پر گریان ہوتے ہیں دوسرے کی کم کاری کا شکوہ نہیں کرتے ۔

ھم لوگ ظاھر کو باطن کے خلاف تصور کرتے ہیں :

یہ عنوان پوری ایک کتاب ہے کہ آدمی کس طرح اس گمراہ اور منحرف فکر میں پڑتاہے اور کس طرح اس فکر سے نجات پاتاہے کہ ھم لوگ عجیب و غریب قوۃ فکر کے زنجیروں میں جکڑ جاتے ہیں ، اور جس فکر و خیال و ذھنیت میں ھم گرفتار ہوتے ہیں اسی میں اشتباہات کو زیادہ کرتے جاتے ہیں اور آخر اپنی فکر کو اپنے سے جدا کرو ، یہ بھی ممکن کہاں

دوسروں کی شکایت رکھنے والے کبھی بھی موفق نہیں ہوتے :

 

 بے اعتمادی نفس :

ھم لوگوں کو اپنے آپ پر بھروسہ کرنا چاہیۓ لیکن صرف اور صرف اپنے عمل و استعداد کو معیار ٹہراتے ہوۓ ،نہ کہ خیالات و ھوسیات کو مدّنظر رکھتے ہوۓ ، بالفاظ دیگر بالفعل جو ہے اس پر بھروسہ کرنا چاہیۓ لیکن بالقوّہ جو ہو سکتاہے اس پر تکیہ نہیں کرنا چاہیۓ ۔

 کھوۓ ہوۓ کی بازیابی اور موجودہ نقائص سے تصفیہ :

آپسی بھائی چارہ :

میں یہ مانتا ہوں کہ سارے سنّی شیعہ بوھرے زیدی اسمائیلی جعفری ، حنفی شافعی مالکی حنفی جنبلی ، وھّابی سلفی اھلحدیث ، بریلوی دیوبندی اور جتنے بھی فرقیں ہیں ان سب میں اختلاف تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بھائی چارہ نہ رکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ چاہے جتنا اختلاف ہو ایک دوسرے سے مل کر رھنے میں تو کوئی ھرج نہیں ہے حتّی کہ غیر مسلمانوں سے بھی خوش اخلاقی کا برتاو کرنے میں کونسی رکاوٹ ہے ؟ کم از کم ھر کسی سے خوشمزاجی و نیک معاشرت کا تعلق رکھنا چاہیۓ ۔

اختلافی مسائل کا صرف علمی نہیں بلکہ اخلاقی حلّ تلاش کریں :

آج جو ھم ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں اور ایک دوسرے کے اصول پر معترض ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو بے دین و منحرف ثابت کرتے ہیں تو اس کا حلّ دو راستہ ہیں ؛ ایک یہ کہ ھم سارے مختلف الاعتقاد ، متعدد المذاھب اپنی وحدت کا علمی و تحقیقی طور پر مناظرہ کی صورت میں تشتّت و تفرقہ کو مٹاۓ ۔ دوسرا یہ کہ سارے علمی و اصولی اختلاف کے باوجود باھمی ھمدردی و ھمدلی سے جیۓ ، ایک دوسرے کو سارے معاشرتی مسائل میں تحمل کرلیں ، اختلافی مشکلات میں صبر سے کام لیں اور امن و اخلاق کا دامن ھاتھ سے جانے نہ دیں ۔

کیونکہ اصل میں ھمارے ایک دوسرے کو لعن و طعن کرنا ، اصولی و مذھبی رسوم کی گوناگونی کی بنا پر کم ہے ایک دوسرے سے نفرت کے سبب زیادہ ہے کیونکہ اگر کوئی نماز پڑھتے وقت ھاتھ کھولتاہے یا کوئی ھاتھ باندھتاہے یا اگر کوئی زکوۃکو واجب مانتاہے یا کوئی مستحبّ مانتاہے یا کوئی کچھ مانتاہے یا نہیں مانتا تو اس کا سبب اختلاف مسائل نہیں بلکہ مسائل کے مختلف ہونے کے بعد جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کیا جاتا اور چھوٹے چھوٹے جزئی باتوں کو جو تمام عالم انسانیت میں پائی جاتی ہیں جدّی لیتے ہیں اور اختلاف کا سبب بناتے ہیں جو کہ اھمیت دینے کے قابل نہیں ہوتیں اس لۓ ھمیشہ جزئیاتی مسائل کو وحدت کے رنگ سے مٹا دینا چاہیۓ ۔ 

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
آج کا نظام حوذوی اور طریقۂ علماء قدیم

آج کا نظام حوذوی اور طریقۂ علماء قدیم

آج کا نظام حوذوی اور طری‍قۂ علماء قدماء 

کچھ شرح حال تو شبلی نعمانی کے مقالے سے ہوتی ہے کہ انھوں نے کچھ تبصرہ اپنے مقالات میں مدارس و دروس و نظام تعلیم کے متعلق کیا ہے ۔ اور جابجا ابن بطوطہ انڈلیسی نے بھی حوزوی نظام تعلیم و تربیت کا تذکرہ کیا ہے ۔ باقی ھمارے علماء گذشتگان کی سیرت بھی ھمارے سامنے ہے جس سے پتا چلتاہے کہ آج کے روحانیوں سے معاشرہ اور مذھبی تعلیم و زندگی میں اور پہلے کے طرز و طریقہ میں بالکل تضادّ کی نسبت ہے،کل تک علماء پیامبر کی شریعت کے محافظ تھے اور اپنے وظائف پر دل و جان سے پابند تھے نماز و روزہ و تلاوت کی کثرت تھی ۔ پر آج کے علماء و طلباء میں پژماندی و سستی ،حیرانی و ذلّت ہے ،آج جس کے پاس چار اینٹ ہے اس کی اپنی مسجد تیار ،اور جو بیچارہ سیاسی مسائل و کہیں سے چار پیسے کمانے میں ناکام رھا وہ دنیا کا بدترین مولوی ہے ،کل کے علماء بھوکے رھ کر بھی مضبوط تھے اور علم و تقوے کے علمبردار تھے لیکن آج کے جو جتنا کھاۓ اور کھلاۓ وہ اتنا بڑا عالم ہے ، کل کے علماء درباری معلوم تھے لیکن آج علماء بغیر درباری بنے عالم ھی نہیں کہلاتے ۔

کل بھوک عالم کو عالم بنا تی تھی آج شکم سیری معیار علم ہے جو جتنا چاق تن ہے اس مولوی کی اتنی عزت کی جاتی ہے،جیسے کہ اس شخص نے علم کھا لیاہے اور وہ سارا علم پیٹ میں جمع ہو گیا ہے ۔

آج تک یہ آئین نہ بن سکا کہ ایک مذھبی راھنما کو کن ویژگیوں کا حامل ہونا چاہیۓ ؟ان کے حدود کیا ہیں ؟ ان کی ذمّداری و وظائف کیا ہیں ؟ گویا آج تک حوزوی تعلیم و طریقہ کا کوئی مثبت راہ حلّ ھموار نہیں ہے ،ھر شخص اپنے اپنے حالات و ماحول سے جیتاہے ۔

 اس پر لطف یہ کہ اگر کوئی شخص ان مردوں میں زندہ دل نکل بھی جاتاہے تو وہ اسے ایک عجیب نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ان ناکاموں میں یہ کامیابی کی باتیں کہاں سے آگئی ؟! علمی حلقوں میں پیامبر ۖ کی سیرت و اخلاق سے زیادہ دیگر علمی مباحث میں گفتگو ہو رھی ہے ،آج تقوے کا معیار سیاست سے بدل چکا ہے ،اکثر حضرات خرافاتی باتوں کو اھمیت دیتے ہیں ،علماء میں خرافات ، اور لوگوں میں جھالت عروج پر ہے، حقیقت کن مسائل میں گم ہوگیئ ہے، پتا نہیں چلتا ،ھمارے طلباء کو ابھی خرافات سے فرصت ھی نہیں ہے کہ علمی مسائل میں پڑیں ،اتنا وقت ھی نہیں ہے نماز کے بعد دعا و قرآن پڑیں ،

لوگوں میں عزت نہیں ہے ، حقیت کی نگاہ سے دیکھا جاۓ تو خود ھمارے ھی معاشرہ میں اور خود ھمارے ھی لوگوں میں ھماری حیثیت و نقش زندگی کیا ہے ؟ آج ھی کا معاشرہ ھمیں ایک نا کارہ و گئی گذری نگاہ سے نہیں دیکھتا؟ آیا ھم گذشتہ علمی حلقوں کی با نسبت پیش رفت تر رھیں ہیں یا نقصان میں رھے ہیں ، کل تک ھمارے علماء غیروں کے معاشرہ میں بھی مّثبت و کامیاب تھے لیکن آج خود اپنوں میں ذلت ہے ۔

آج علوم دینی میں سب کچھ ہے لیکن زندگی نہیں ہے

ھر طالب علم نکل تاہے تو اس غرض سے کہ کبھی نہ کبھی آخر عمر تک اسے بھی درجۂ اجتھاد مل جاۓ گا ،اور لوگ ان کے فتوی پر عمل کریں گے ،کو‏ئی طالب علم یہ سونچنے کی کوشش نہیں کرتا کہ وہ اس معاشرہ کے لۓ ایک مثبت شخصیت ثابت ہو ،آپ خود سونچیۓ جب ھر انسان صرف اجتھاد کرنا چاہتاہے تو تقلید کون کرے گا اور ایسا کتنے لوگوں کی مرجعیت دنیا میں چل سکتی ہے ، اور پھر کیا حکمت یہی ہے کہ سب اجتھاد ھی کریں یا پھر آج کے مسلمان معاشرہ کو دوسرے علوم و فنون و مکاتب کی بھی ضرورت ہے ؟۔ کہیں صدیوں کا عرصہ گذرنے کے باوجود آج بھی مثبت راھیں ھموار نہیں ہے ، حتی کہ افسوس صد افسوس، ھم آج تک طب معصومین کو بھی تجربی و عملی پیراھن نہیں پہنا سکے جبکہ آج کی اشدّ ضرورت ہے اور دنیا مرض بدنی کے معاملات میں بیش از حدّ در گیر ہے ،یقینیات کی بجاے خیالات و مشتبھات ہیں ،عزت کی بجاے اپنے ھی وطن میں غربت کا عالم ہے ،طالب علم کا ایک ھی قدم نیکی کی طرف اٹھاتاہے اور وہ اس وقت اٹھا تاہے جب وہ علم کا راستہ چلنے کی سوچتاہے اس کے بعد تمام قدم اپنے ھی مقصد و منشاء کے خلاف اٹھاتاہے ۔ کیونکہ عملی زندگی مفلوج ہے ۔ جو ھر طرح کی دوا رکھتے ہیں بے چارہ وھی معلول ہیں ۔ جس معاشرہ کا طبیب ھی مریض ہو ان کی تو اللہ ھی خیر کرے ۔ 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

سلسلۂ قطب شاھی میں شیعی آثار

سلسلۂ قطب شاھی میں آثار شیعی 

*    محمد قطب الملک شاہ بن جمشید قطب شاہ اورنگ نشین محمد نگر گولکنڈا

*    ابراھیم قطب شاہ

*    محمد قلی قطب شاہ

*    عبداللہ

*     

محمد قلی قطب الملک قطب شاہ بر سریر سلطنت جلوس فرمودہ تا بہ خاتمہ طبقۂ قطب شاھیہ ابوالحسن تانا شاہ بمدّت دوصد و بیست و ھفت سال سریر آرا بود [تزک قطب شاہی / ص 2 ] اورنگ زیب سی و دو سال در 1130 یکصد و سی ھجری نواب میر قمر الدین معلی بہادر نظام الملک آصف جاہ در قبض خویش آوردند ۔ محمد قلی قطب الملک قطب شاہ در عھد خود از باعث قربت سید رحمت طاھرو بحسب فہمایش او مذھب اثنا عشریہ بدل اعتقاد آوردہ [ ھمان/4] در انوقت بسیار کسان کہ اناس علی دین ملوکھم  واقع است بمتابعت شاہ مغز دینش اختیار کردند ۔

از سلطان محمد قلی قطب قطب شاہ تاعبداللہ خطبہ والیان ایران سلطان عبداللہ صفوی شاہ حیات صفوی بطریق قوم اثنا عشریہ مخفی از خوف مسند نشینان ھندوستان کہ در اولاد تیموریہ بود میخواندند ۔ [ھمان / 5 ]

محمد قلی قطب شاہ مدرسہ و جامع مسجد تیار ساخت ۔۔۔ 2000 روپیہ ماھوار سوای پاچہ و سالیانہ قریب ھشتاد ھزار روپیہ در ماہ رمضان و در ایام عشرہ محرم معمول داشت و خدمت گذارئ ۔۔۔ زوّاران نجف و کربلا معلّا بر خود گوار داشت [ھمار/12]

بمجرّد شنیدن کلمات درویش داروغہ سکوت کرد درویش رفت در طرفۃ العین این اخبار نزد بادشاہ رسید حکم فرمود کہ قریب چہار مینار پایہ کنی مسجد شروع کند 4000 کاماٹی و دو ھزار معمار دو ھزار سنگ تراش برای تیاری مسجد معین بود ، در 1104 ھ تیاری حصار و دوازدہ و مداخل سادہ بالای بیش مسجد کردہ و۔۔۔ مکہ مسجد موسوم کرد در ابتداء تیاری پخت دوازدہ پلہ نیاز حضرت دوازدہ امام علیہ السلام کنایند ۔ [ھمار/ ص14 ]

بعد از آن تیارئ بوستان لنگم پلّی وداد محل وگوشۂ محل معہ حوض سہ لک و چھل ھزار (34000) روپیہ و داد محل وغیرہ و دیگر عمارت بست و سہ لک بتصرّف آمدہ ۔ در 1003 ھ عبداللہ تیارئ عاشور خانۂ بارتفاع دوازدہ درعہ تصرّف 360000 روپیہ برای تعز ناران حسین انصرام یافت و در مین آن علم جواھر و طلا و نقرہ وغیرہ استاد میکردند ۔

در ایام محرم تیاری پخت روزینہ دوازدہ صد روپیہ و شربت و نبات دوازدہ من برای تعزیہ داری وغیرہ معہ خیرات دوازدہ من مقرّر بود

در تعزیہ خمہ حسینی علم رسانیدہ بفقراء تقسیم کرد ۔

قصّہ نگاران این واقعہ را با تفصیل بیان می کنند : عبداللہ قطب شاہ بر فیل سوار بود و آن فیل مست بود و خطر جان شاہ بود در ھمان زمان ملکہ نذر کرد ، اگر پادشاہ سلامت برگشتہ شباشب نیازی زنجیر طلا بودن دوازدہ من پختہ نیاز کنانیدہ روز دیگر بجلوس تمام لنگر کشیدہ در حسینی علم بردہ آن زنجیر را پارہ کردہ بسادات و فقراء و مساکین متوکلین غربت نشین تقسیم کرد ۔

بابت سلامتی سلطان یک علم بہ اسم اللہ محمد علی تیار کنانید [ھمان/17 ]

شربت قند سفید بوزن دوازدہ من پختہ روزینہ در ایام عشرہ از سرکار مقرر کرد ص7 / ھمان ]

سمت جنوب بلدہ کہ زیر کوھیچہ آب واقع است بیگم مذکور معمولی داشت کہ اکثر در آنجا باری سیر معہ محل بادشاہ فایز گشتہ تمام روزمی باند چیزی خیرات می کرد باین سبب چشمہ بیبی اشتھار یافت درین نعل طبّی تمام نسایان عوام برای غسل ناکشی را با آن فراھم شدہ در لہو لعب میکنند رانند و در تصرّف جناب رسول اکرم ۖ و خود آھنی بود بینی حود را نعل م یگویند چنانچہ آن خود متبرکہ را جناب امام ھمام حضرت امام حسین علیہ الصلوات و السلام بوقت رزم افواج حاکم شام بہ خود داشتہ بودند بر کوہ کہ از بلدہ شش گروہ در سر حد موضع کہ پر از واقع است و بر آن جابتخانہ کوچک بود ، مجاری آن کوہ دیگر واقع است بر آن قلعچہ افتادہ بود روزیکہ بادشاہ در شب ماہ بالا بر حصار قلعہ گولکندہ متوجہ شد مشغول بود بہ معاینہ کرد کہ بسمت شمال روشنی نمودار است باید پرسید کہ بر کوہ جائیکہ ملعچہ قوم را ریل واقع است در آن ویران امشب روشنی کدام کردہ است زناردار مصاحب وقت بود فورا عرض کرد کہ بران کوھیچہ اسد اللہ الغالب علی ابن ابیطالب علیہ الصلوات و السلام واقع است کہ امشب تمام اھل شیعہ روشنی کردہ اند [ھمان /8 ] نیاز جشن حیدری بجا آورد ص18

نواب میر نظام علیخان بہادر نظام الطلک آصف جاہ در سنہ ھجری 1178 از معروضۂ نوازش علیخان عاشورخانہ را از سرنو ساخت [ھمان / 20]

روز جمعہ بخطّ زشت محمد کوثر علی نوشتہ بوقت دوپہر باتمام رسید

م م م

م م 

م

ص21 / ھمان 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali
basit ali
epapar

epapar

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali

یمن میں آل سعود کا انتھائی ظلم

 
جنگ ویب ڈیسک.....یمن میں حوثی اور معزول صدر صالح کی ملیشیاؤں کے زیرکنٹرول دارالحکومت صنعاء میں صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ محاصرے اور بھوک کے ساتھ ساتھ دواؤں اور طبی ضروریات کی قلت وہ عوامل ہیں جن کے سبب شہریوں کی صحت کے حوالے سے صورت حال انتہائی خراب ہوچکی ہے اور اس دوران متعدد افراد بالخصوص بہت سے بچے وفات پاچکے ہیں۔
 
اقوام متحدہ کےمطابق یمن میں تقریباً 13 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد بچے ملک میں انسانی اور صحت سے متعلق بدترین صورت حال کے سبب پیدا ہوتے ہی غذائی قلت میں مبتلا ہورہے ہیں۔اسی طرح مریضوں کو محاصرے، بھوک کے علاوہ دواؤں اور طبی ضروریات کے شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان مریضوں کی صحت مزید خراب ہوگئی ہے۔
 
حوثی اور صالح ملیشیاؤں کے زیرقبضہ صنعاء کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں دواؤں کا وجود نہیں ہے۔ باقاعدہ علاج کے ضرورت مند دواء کے حصول کے لیے طویل عرصے تک انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ دواؤں اور طبی سامان تیار کرنے والی فیکٹریاں پہلے ہی بند ہوچکی ہیں۔
 
ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک میں طبی اور انسانی بحران کے سبب روزانہ اوسطا 113 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریبا 1 کروڑ یمنی صاف پانی سے محروم ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں لوگوں میں امراض پھیلنے کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق بہت سی تنظیموں نے مسلح ملیشیاؤں کے ہاتھوں اغوا اور قتل کی کارروائیوں کے خوف سے ڈاکٹروں اور رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد کو واپس بلا لیا ہے۔ 
 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰
basit ali